اڑتی ہے دل کے فرش پر بیتے دنوں کی راکھ
میں ہوں تِرا خیال ہے اور سگرٹوں کی راکھ
بدلا جو سال ہم کو بھی سب نے بھلا دیا
ہم تھے کہ گزرے سال کے کیلنڈروں کی راکھ
گلیاں بھی سوچ میں ہیں دریچے بھی محو ہیں
وہ کون تھا بکھیر گیا جو دلوں کی راکھ
سب رنگتیں بجھا گئی ہے وقت کی ہوا
دل میں چھپائے پھرتے ہیں اب خواہشوں کی راکھ
وہ لمحہ کون سا تھا کہ جس کو نہ روئے ہم
اب تک پلک پلک ہے سجی آنسوؤں کی راکھ
پھر وہ گلی ہے شام ہے تنہائیوں کا رقص
پھیلی ہے آس پاس کئی آہٹوں کی راکھ
محمود شام
No comments:
Post a Comment