اتنے اشجار میں چھتنار کو دیکھے جائیں
چھاؤں لینی ہو تو ہم یار کو دیکھے جائیں
ایسے لگتا ہے کوئی بات کرے گی ہم سے
اسی امید پہ دیوار کو دیکھے جائیں
جائیں عمرے پہ کسی یار کی یاد آ جائے
اور ہم بیٹھ کے اک غار کو دیکھے جائیں
ان کو معلوم ہے یہ روشنی تو کچھ بھی نہیں
جو میری سوچ کی رفتار کو دیکھے جائیں
بند کمرے میں کوئی قوسِ قزح اتری ہے
ہم خوشی سے ترے رخسار کو دیکھے جائیں
کس کو کتنی ہے اجازت سبھی اہلِ مرکز
دائرہ کھینچتی پرکار کو دیکھے جائیں
لوگ ہیں چاند سے تاروں پہ پہنچنے والے
آپ بس گاؤں کے سردار کو دیکھے جائیں
دن نکلتا ہے تو اک ناشتے کی ٹیبل پر
نیند والے کسی بیدار کو دیکھے جائیں
اپنی اولاد کو سب پیار سے ہی دیکھتے ہیں
کیا برا ہم اگر اشعار کو دیکھے جائیں
ندیم راجہ
No comments:
Post a Comment