Monday 19 October 2020

اب ترا دکھ بھی پالنا پڑے گا

 کوئی رستہ نکالنا پڑے گا

آگ میں ہاتھ ڈالنا پڑے گا

خود کو تیرے سپرد کیا کیجے

پھر تجھے بھی سنبھالنا پڑے گا

مانگنے میں اگر کمی نہ ہوئی

کم سے کم پر تو ٹالنا پڑے گا

مسکرانا سکھا رہا ہوں تجھے

اب ترا دکھ بھی پالنا پڑے گا

ایک خط ہے خطوں میں رکھا ہوا

سارا ماضی کھنگالنا پڑے گا


اظہر فراغ

No comments:

Post a Comment