کوئی رستہ نکالنا پڑے گا
آگ میں ہاتھ ڈالنا پڑے گا
خود کو تیرے سپرد کیا کیجے
پھر تجھے بھی سنبھالنا پڑے گا
مانگنے میں اگر کمی نہ ہوئی
کم سے کم پر تو ٹالنا پڑے گا
مسکرانا سکھا رہا ہوں تجھے
اب ترا دکھ بھی پالنا پڑے گا
ایک خط ہے خطوں میں رکھا ہوا
سارا ماضی کھنگالنا پڑے گا
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment