Tuesday, 20 October 2020

میں انتظار نہیں کر سکتا

 معذرت چاہتا ہوں دوست

میں اب انتظار نہیں کرتا

بلکہ خود چل پڑتا ہوں اپنی طرف

ایک پوشیدہ چاپ کے تعاقب میں

خود سے باہر نکلتا ہوں

اور اپنے ہی جیسے کسی ہجوم کا حصہ بن کر

اپنے وجود پر اکتفا کرتا ہوں

اپنی عمیق روشنی سے نیا جنم لیتے ہوئے

خود کی بنت میں بے جوڑ ہونے کی کاوش

رائیگاں نہیں جاتی

سنو

سمے کے بھید بھاؤ میں اپنا تخمینہ لگاتے ہوئے

ذات کی جمع پونجی میں سے

میں تمہیں اپنی حسیات سے مسترد نہیں کرتا

بساط بھر صبر اور ایک مٹھی وصال کے عوض

میں تمہیں کشید کرتا ہوں اپنے اطراف سے

اور گنجائش پیدا کرتا ہوں تمہاری میزبانی کے لیے

کسی اور جہت سے اپنے آپ میں

لیکن معذرت

میں انتظار نہیں کر سکتا

اپنی رگوں میں بہتے ہوئے اس دکھ کے پگھلنے کا

جو اپنے بہاؤ میں میری توجہ بہا لے جا سکتا ہے

اپنے ساتھ

میں طے شدہ گزر گاہوں کا مسافر نہیں

مجھے تو ہر امکان سے گزر کر آنا ہے تمہاری سمت

اور ہاں

میں تو اپنا بھی انتظار نہیں کرتا ہوں اب


انجم سلیمی

No comments:

Post a Comment