معذرت چاہتا ہوں دوست
میں اب انتظار نہیں کرتا
بلکہ خود چل پڑتا ہوں اپنی طرف
ایک پوشیدہ چاپ کے تعاقب میں
خود سے باہر نکلتا ہوں
اور اپنے ہی جیسے کسی ہجوم کا حصہ بن کر
اپنے وجود پر اکتفا کرتا ہوں
اپنی عمیق روشنی سے نیا جنم لیتے ہوئے
خود کی بنت میں بے جوڑ ہونے کی کاوش
رائیگاں نہیں جاتی
سنو
سمے کے بھید بھاؤ میں اپنا تخمینہ لگاتے ہوئے
ذات کی جمع پونجی میں سے
میں تمہیں اپنی حسیات سے مسترد نہیں کرتا
بساط بھر صبر اور ایک مٹھی وصال کے عوض
میں تمہیں کشید کرتا ہوں اپنے اطراف سے
اور گنجائش پیدا کرتا ہوں تمہاری میزبانی کے لیے
کسی اور جہت سے اپنے آپ میں
لیکن معذرت
میں انتظار نہیں کر سکتا
اپنی رگوں میں بہتے ہوئے اس دکھ کے پگھلنے کا
جو اپنے بہاؤ میں میری توجہ بہا لے جا سکتا ہے
اپنے ساتھ
میں طے شدہ گزر گاہوں کا مسافر نہیں
مجھے تو ہر امکان سے گزر کر آنا ہے تمہاری سمت
اور ہاں
میں تو اپنا بھی انتظار نہیں کرتا ہوں اب
انجم سلیمی
No comments:
Post a Comment