مِری سمت آ کبھی لوٹ کر
تُو نکال مجھ کو عذاب سے
تجھے یاد ہے
مِرے ہر طرف
تِری آرزو کا حصار تھا
وہ نہیں رہا
مِرا سانحہ کبھی سوچ تو
تِری یاد کا جو خمار تھا
وہ نہیں رہا
تُو نہیں رہا تو حیات کو
تیری جستجو بھی نہیں رہی
لبِ آبجو
بڑے راز سے
کسی زرد رنگ کی شام سے
مِری گفتگو بھی رہی نہیں
کبھی سوچ تو
مِرے سامنے کوئی راستہ ہی نہیں رہا
گھنے جنگلوں کی اجاڑ میں
کسی نصف رات کے چاند سے
مِرا واسطہ ہی نہیں رہا
تِرے غم کی ساری نزاکتیں
تیرے ساتھ ہی کہیں کھو گئی
تِرے غم سے کوئی بھی فائدہ دلِ بے ثمر نہ اٹھا سکا
نہ یہ رو سکا نہ رلا سکا
مِرا سانحہ کبھی سوچ تو
تِرے ہجر میں تِری یاد کو ہی بھلا دیا
وہ جو ساعتیں تھیں ملال کی
مِرے رتجگوں سے کہاں گئیں
مِری سانس میں تِری خوشبوؤں کا گزر نہیں
وہ جو پھول تھے
انہیں کیا ہوا
کہیں تتلیوں کا پتا نہیں
کہاں رکھ دیا تِری زلف کو تِری آنکھ کو ترے ہونٹ کو
مِرے مہرباں
مِری سمت آ کبھی لوٹ کر
گئی ساعتوں کے طفیل ہی
کبھی سر پھری سی ہوا سے مِل
مِرا تذکرہ یونہی چھیڑ دے
مجھے یاد کر مجھے یاد آ
وہ جو در بڑے ہی خموش ہیں
انہیں کھول تُو
کہیں بول تُو
کبھی ساحلوں کے سکوت پر مرا نام لکھ
مرے عکس کو کھلے پانیوں میں بہا کبھی
گئے موسموں کو بلا کبھی
مِرے ساتھ چل کہیں دور تک
کسی شاخ سے ہی لپٹ کبھی
کوئی پل تو مجھ پہ نثار کر
مِرے دل میں خود کو اتار دے
مجھے پیار کر مجھے پیار کر
مِری سمت آ کبھی لوٹ کر
مِرے راستوں کو غبار کر
مقصود وفا
No comments:
Post a Comment