Wednesday, 21 October 2020

پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر

 دُکانِ گریہ


پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخرِ

دُکھ عبارت تو نہیں، جو تجھے لکھ کر بھیجیں​

یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو

نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو

زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں

آئینہ بھی تو نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو

تُو نے پوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو

یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز

کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ہے

جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ہوا

جب بھی چلتی ہے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ہے

اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دکھ ہے

جسم میں رینگتی رہتی ہے مسافت کی تھکن

پھر بھی کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے حالات کا بوجھ

اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے

جس کو بھی دیکھیئے چپ چاپ چلا جاتا ہے

کبھی خود سے کبھی رستوں سے الجھتا ہے مگر

جانے والا کسی آواز پہ رکتا ہی نہی

ڈھونڈنا ہے نیا پیرائیۂ اظہار ہمیں

استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہیں

دل گرفتہ ہیں طلسماتِ غمِ ہستی سے

سانس لینے سے فسوں قریاں جاں ٹوٹتی ہے

اک تغیر پس ہر شے ہے مگر ظلم کی ڈور

ابھی معلوم نہیں ہے کہ کہاں ٹوٹتی ہے

تُو سمجھتا ہے کہ خوشبو سے معطر ہے حیات

تُو نے چکھا ہی نہیں زہر کسی موسم کا

تجھ پہ گزرا ہی نہیں رقص جنوں کا عالم

ایسا عالم جہاں صدیوں کے تحیر کا نشہ

ہر بچھڑی ہوئی ساعت سے گلے ملتا ہے

اس تماشے کا بظاہر تو نہیں کوئی سبب

صرف محسوس کرو گے تو پتا چلتا ہے

ایک دھن ہے جو سنائی نہیں دیتی پھر بھی

لے بہ لے بڑھتا چلا جاتا ہے ہنگامِ ستم

کو بہ کو پھیلتا جاتا ہےغبارِ من و تو

روح سے خالی ہوے جاتے ہے جسموں کے حرم

وقت بے رحم ہے، ہم رقص برہنہ ہیں سبھی

اب تو پابند سلاسل نہیں کوئی پھر بھی

دشت مژگاں میں بھٹکتا ہوا تاروں کا ہجوم

صفحۂ لب پہ سسسکتی ہوئی آواز کی لو

دیکھ تو کیسے رہائی کی خبر کرتی ہے

روزن وقت سے آغاز سفر کرتی ہے

بے خبر رہنا کسی بات سے اچھا ہی نہیں

تُو کبھی وقت کی دہلیز پہ ٹہرا ہی نہیں

تُو نے دیکھے ہی نہیں حلق امروز کے رنگ

گرمی وعدہ فردا سے پگھلتے ہوئے لوگ

اپنے ہی خواب کی تعبیر مے جلتے ہوئے لوگ

بھوک اور پیاس کی مری ہوئی فصلوں کی طرح

پرعزم کی لکیروں سے ابھرتے ہوئے لوگ

امن کے نام پر بارود بھری دنیا میں

خاص خشک کی مانند بکھرتے ہوئے لوگ

روز جیتے ہوئےاور روز ہی مرتے ہوئے لوگ

زندگی فلم نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو

تُو نے پوچھا ہے، مگر کیسے بتائیں تجھ کو

کوئی محفوظ نہیں اہل تحفظ سے یہاں

رات بھاری ہے کہیں اور کہیں دن بھاری

ساری دنیا کوئی میدان سا لگتی ہے ہمیں

جس میں اک معرکۂ سود و زیاں جاری ہے

پاؤں رکھے ہوئے بارود پر سب لوگ جہاں

اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پروانہ شب

آستینوں میں چھپائے ہوئے مہتاب کوئی

اپنی گردن میں لیے اپنے گریبان کا طوق

نیند میں چلتے ہوئے دیکھتے ہے خواب کوئی

اور یہ سوچتے رہتے ہے کہ دیواروں سے

شب کے آثار ڈھلے، صبح کا سورج ابھرا

دور افق پار پہاڑوں پہ چمکتی ہوئی برف

نئے سورج کی تمازت سے پگھل جائے گی

اور کسی وقفہ امکان سحر میں اب کہ

روشنی سارے اندھیروں کو نگل جائے گی

دیکھئے کیسے پہنچتی ہے ٹھکانے پہ کہیں

دور اک فاختہ اڑتی ہے نشانے پہ کہیں

آ کے یہ منظر خون بستہ دکھائیں تجھ کو

تُو نے پوچھا ہے مگر کیسےبتائیں تجھ کو

کوئی گاہک ہی نہیں جوہر آئندہ کا

چشم کھولے ہوئے بیٹھی ہے دکان گریہ

اور اسی منظر خون بستہ کے گوشے میں کہیں

سر پہ ڈالے ہوئے اک لمحہ موجود کی دھول

تیرے عشاق بہت خاک بسر پھرتے ہیں

وقت کب کھینچ لے مقتل میں گواہی کے لیے

دست خالی میں لیے کاسۂ سر پھرتے ہیں

پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر

دکھ عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں

دکھ تو محسوس ہوا کرتا ہے

چاہے تیرا ہو یا میرا دکھ ہو

آدمی وہ ہے جسے جیتے جی

صرف اپنا نہیں سب کا دکھ ہو

چاک ہو جائے جو اک بار ہوس کے ہاتھوں

جامۂ عشق دوبارہ تو نہیں سلتا ہے

آسمان میری زمینوں پر جھکا ہے لیکن

تیرا اور میرا ستارہ ہی نہیں ملتا ہے


سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment