پہلے ست رنگ خواب بنتا ہے
عشق پھر اضطراب بنتا ہے
تُو مِرا وقت کھا گیا سارا
میرا تجھ سے حساب بنتا ہے
سچ بتا اس مقام پر مجھ سے
کیا تِرا اجتناب بنتا ہے؟
ایک الجھے ہوئے تعلق سے
مستقل اضطراب بنتا ہے
یہ محبت عجب ضرورت ہے
اس کے دم سے ہی خواب بنتا ہے
زندگی کا سوال تھا صاحب
کچھ تو آخر جواب بنتا ہے
یہ لگن ایسی لہر ہے جس سے
آرزو کا سراب بنتا ہے
ناہید ورک
No comments:
Post a Comment