Wednesday 21 October 2020

کیسے کٹا یہ شب کا سفر دیکھنا بھی ہے

 کیسے کٹا یہ شب کا سفر دیکھنا بھی ہے

بجھتے دِیے نے وقتِ سحر دیکھنا بھی ہے

اب کے اسے قریب سے چھونا بھی ہے ضرور

پتھر ہے آئینہ کہ گہر دیکھنا بھی ہے

یہ شہر چھوڑنا ہے مگر اس سے پیشتر

اس بے وفا کو ایک نظر دیکھنا بھی ہے

ان آنسوؤں کے ساتھ بصارت ہی بہہ نہ جائے

اتنا نہ رو اے دیدۂ تر دیکھنا بھی ہے

ممکن نہیں ہے اس کو لگاتار دیکھنا

رک رک کے اس کو دیکھ اگر دیکھنا بھی ہے

اس آس پر کھڑے ہیں کہ اک بار یوسفی

اس نے ذرا پلٹ کے ادھر دیکھنا بھی ہے


اشرف یوسفی

No comments:

Post a Comment