Wednesday 21 October 2020

کبھی رک گئے کبھی چل دئیے کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے

 کبھی رک گئے کبھی چل دئیے کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے

یوں ہی عمر ساری گزار دی، یوں ہی زندگی کے ستم سہے

کبھی نیند میں کبھی ہوش میں تُو جہاں ملا تجھے دیکھ کر

نہ نظر ملی نہ زباں ملی، یوں ہی سر جھکا کے گزر گئے

کبھی زلف پر کبھی چشم پر، کبھی تیرے حسین وجود پر

جو پسند تھے میری کتاب میں وہ شعر سارے بکھر گئے

کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی دربدر

غم عاشقی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے


پروین شاکر

No comments:

Post a Comment