Sunday 18 October 2020

ہمارے بعد ہمارا نشاں رہے نہ رہے

ملو کہ سلسلۂ رفتگاں رہے نہ رہے

ہمارے بعد ہمارا نشاں رہے نہ رہے

نہیں ملے گی پھر ارزانئ ہنر ایسی

سو مال اٹھا لو کہ پھر یہ دکاں رہے نہ رہے

یہ ان کا کام ہے جن کو نہیں ہے فکرِ فنا

یہ شعر یاد رہیں گے، زباں رہے نہ رہے

نبود و بود سے آئندگاں کو کیا لینا

انہیں غرض ہی نہیں، ہم یہاں رہے نہ رہے

جو ہو سو ہو، بھلا صیاد کو ہے کیا پرواہ

چمن میں طوطئ شیریں بیاں رہے نہ رہے

یہاں ہے کارِ حیات و ممات ایک ہی بات

مکیں رہے نہ رہے یا مکاں رہے نہ رہے

ہمارے ہوتے ہوئے سیکھ لو رفو کاری

یہ حسن بخیہ گری بعد ازاں رہے نہ رہے

یہ کنجِ عافیت اختر بہت ہے جینے کو

کسے خبر کہ یہ جائے اماں رہے نہ رہے


اختر عثمان

No comments:

Post a Comment