ملو کہ سلسلۂ رفتگاں رہے نہ رہے
ہمارے بعد ہمارا نشاں رہے نہ رہے
نہیں ملے گی پھر ارزانئ ہنر ایسی
سو مال اٹھا لو کہ پھر یہ دکاں رہے نہ رہے
یہ ان کا کام ہے جن کو نہیں ہے فکرِ فنا
یہ شعر یاد رہیں گے، زباں رہے نہ رہے
نبود و بود سے آئندگاں کو کیا لینا
انہیں غرض ہی نہیں، ہم یہاں رہے نہ رہے
جو ہو سو ہو، بھلا صیاد کو ہے کیا پرواہ
چمن میں طوطئ شیریں بیاں رہے نہ رہے
یہاں ہے کارِ حیات و ممات ایک ہی بات
مکیں رہے نہ رہے یا مکاں رہے نہ رہے
ہمارے ہوتے ہوئے سیکھ لو رفو کاری
یہ حسن بخیہ گری بعد ازاں رہے نہ رہے
یہ کنجِ عافیت اختر بہت ہے جینے کو
کسے خبر کہ یہ جائے اماں رہے نہ رہے
اختر عثمان
No comments:
Post a Comment