جو عیاں تھا اسے مستور کہا جانے لگا
دل کی دھڑکن کو بہت دور کہا جانے لگا
شوق نے تیرے رکھا سب سے گریزاں ایسا
رفتہ رفتہ مجھے مغرور کہا جانے لگا
یہ زمانہ ہے یہاں سب ہے چلن پر موقوف
ابنِ منصور کو منصور کہا جانے لگا
زرد جو چیز ہوئی لوگ اسے زر سمجھے
سنگ چمکا تو اسے طور کہا جانے لگا
پھوٹ نکلے گی اسی حرفِ منور سے سحر
جو میانِ شبِ دیجور کہا جانے لگا
ایک تحریر پہ پہلے تو ہوئے ہاتھ قلم
پھر اسے زیست کا دستور کہا جانے لگا
خورشید رضوی
No comments:
Post a Comment