کہوں یہ کیسے کہ جینے کا حوصلہ دیتے
مگر یہی کہ مجھے غم کوئی نیا دیتے
شب گزشتہ بہت تیز چل رہی تھی ہوا
صدا تو دی پہ کہاں تک تجھے صدا دیتے
کئی زمانے اسی پیچ و تاب میں گزرے
کہ آسماں کو تِرے پاؤں پر جھکا دیتے
یہ کہئے لوح جبیں پر ہے داغ رسوائی
زمانے والے ہمیں خاک میں ملا دیتے
ہوئی تھی ہم سے جو لغزش تو تھام لینا تھا
ہمارے ہاتھ تمہیں عمر بھر دعا دیتے
بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا
وگرنہ ہم بھی کسی دن تمہیں بھلا دیتے
کوئی ہو لمحۂ فرصت کہ بیٹھ کر ہم بھی
ذرا عروس تمنا کو آئینہ دیتے
ملا ہے جرم وفا پر عذاب مہجوری
ہم اپنے آپ کو اس سے کڑی سزا دیتے
زباں پہ کس لیے یہ حرف ناگوار آتا
ہمارے زخم ہمارا اگر پتا دیتے
ذرا سی دیر ٹھہرتی جو گردش ایام
اسے شباب گریزاں کا واسطہ دیتے
خلیل الرحمان اعظمی
No comments:
Post a Comment