Sunday 18 October 2020

کہوں یہ کیسے کہ جینے کا حوصلہ دیتے

 کہوں یہ کیسے کہ جینے کا حوصلہ دیتے

مگر یہی کہ مجھے غم کوئی نیا دیتے

شب گزشتہ بہت تیز چل رہی تھی ہوا

صدا تو دی پہ کہاں تک تجھے صدا دیتے

کئی زمانے اسی پیچ و تاب میں گزرے

کہ آسماں کو تِرے پاؤں پر جھکا دیتے

یہ کہئے لوح جبیں پر ہے داغ رسوائی

زمانے والے ہمیں خاک میں ملا دیتے

ہوئی تھی ہم سے جو لغزش تو تھام لینا تھا

ہمارے ہاتھ تمہیں عمر بھر دعا دیتے

بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا

وگرنہ ہم بھی کسی دن تمہیں بھلا دیتے

کوئی ہو لمحۂ فرصت کہ بیٹھ کر ہم بھی

ذرا عروس تمنا کو آئینہ دیتے

ملا ہے جرم وفا پر عذاب مہجوری

ہم اپنے آپ کو اس سے کڑی سزا دیتے

زباں پہ کس لیے یہ حرف ناگوار آتا

ہمارے زخم ہمارا اگر پتا دیتے

ذرا سی دیر ٹھہرتی جو گردش ایام

اسے شباب گریزاں کا واسطہ دیتے


خلیل الرحمان اعظمی

No comments:

Post a Comment