Monday 19 October 2020

درد کی دھوپ سے چہرے کو نکھر جانا تھا

 درد کی دھوپ سے چہرے کو نکھر جانا تھا

آئینہ دیکھنے والے تجھے مر جانا تھا

راہ میں ایسے نقوش کف پا بھی آئے

میں نے دانستہ جنہیں گرد سفر جانا تھا

وہم‌ و ادراک کے ہر موڑ پہ سوچا میں نے

تو کہاں ہے مرے ہمراہ اگر جانا تھا

آگہی زخم نظارہ نہ بنی تھی جب تک

میں نے ہر شخص کو محبوب نظر جانا تھا

قربتیں ریت کی دیوار ہیں گر سکتی ہیں

مجھ کو خود اپنے ہی سائے میں ٹھہر جانا تھا

تو کہ وہ تیز ہوا جس کی تمنا بے سود

میں کہ وہ خاک جسے خود ہی بکھر جانا تھا

آنکھ ویران سہی پھر بھی اندھیروں کو نصیر

روشنی بن کے مرے دل میں اتر جانا تھا


نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment