Tuesday, 20 October 2020

اک گلی تھی جب اس سے ہم نکلے

 اک گلی تھی جب اس سے ہم نکلے

ایسے نکلے کہ جیسے دم نکلے

جن سے دل کا معاملہ ہوتا

یہاں بہت کم ہی ایسے غم نکلے

کوچہ آرزو جو تھا اس میں

زلف جاناں طرح کے خم نکلے

جو پھرے دربدر یہاں وہ لوگ

اپنے باہر بہت ہی کم نکلے

آگ دل شہر میں لگی جس دن

سب سے آخر میں وہاں سے ہم نکلے

جون یہ جو وجود ہے یہ وجود

کیا بنے گی اگر عدم نکلے

شکوہ یہ ہے کہ وہ بھی وہ نکلا

ہے ندامت کہ ہم بھی ہم نکلے

ہم کو بھی لطفِ بندگی ہو نصیب

کاش یارو خدا صنم نکلے


جون ایلیا

No comments:

Post a Comment