اک گلی تھی جب اس سے ہم نکلے
ایسے نکلے کہ جیسے دم نکلے
جن سے دل کا معاملہ ہوتا
یہاں بہت کم ہی ایسے غم نکلے
کوچہ آرزو جو تھا اس میں
زلف جاناں طرح کے خم نکلے
جو پھرے دربدر یہاں وہ لوگ
اپنے باہر بہت ہی کم نکلے
آگ دل شہر میں لگی جس دن
سب سے آخر میں وہاں سے ہم نکلے
جون یہ جو وجود ہے یہ وجود
کیا بنے گی اگر عدم نکلے
شکوہ یہ ہے کہ وہ بھی وہ نکلا
ہے ندامت کہ ہم بھی ہم نکلے
ہم کو بھی لطفِ بندگی ہو نصیب
کاش یارو خدا صنم نکلے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment