Tuesday 20 October 2020

وقت کے مسائل کو بھول جانا پڑتا ہے

اب سمجھ میں آیا ہے

نظم لکھنے والوں نے نظم کیوں نہیں لکھی؟

پُھول چُننے والوں نے

پُھول چُن لیے لیکن

زخم زخم مٹی کا درد کیوں نہیں سمجھا

مہکتی ہواؤں کے جِسم سے

پسینے کی باس کیوں نہیں کُھرچی

کرب کرب سینوں کا سوز کیوں نہیں گایا

رزق رزق خوشوں میں 

ہلکتی کسانوں کی بُھوک تک نہیں سُونگھی

ذہن کی گُھپاؤں سے

سوچ کے چراغوں کو راستوں میں لانا تھا

نظم کا فریضہ تو راستہ دِکھانا تھا

راستہ بنانے میں درد سہنا پڑتا ہیں

دُکھ اٹھانا پڑتا ہے

وقت کے مسائل کو بھول جانا پڑتا ہے

زہر کھانا پڑتا ہے


انور زاہد

No comments:

Post a Comment