کوئٹے تک
صدیوں سے راہ تکتی ہوئی گھاٹیوں میں تم
اک لمحہ آ کے ہنس گئے، میں ڈھونڈھتا پھرا
ان وادیوں میں برف کے چھینٹوں کے ساتھ ساتھ
ہر سُو شرر برس گئے، میں ڈھونڈھتا پھرا
راتیں ترائیوں کی تہوں میں لڑھک گئیں
دن دلدلوں میں دھنس گئے میں ڈھونڈھتا پھرا
راہیں دھوئیں سے بھر گئیں میں منتظر رہا
قرنوں کے رخ جھلس گئے میں ڈھونڈتا پھرا
تم پھر نہ آ سکوگے، بتانا تو تھا مجھے
تم دور جا کے بس گئے، میں ڈھونڈھتا پھرا
مجید امجد
No comments:
Post a Comment