اے محبت کے مؤرخ ہر حسیں کو بے وفا لکھ
نام اس بے مہر کا بھی برسبیلِ تذکرہ لکھ
کل زمانہ جان لے گا اس کے باشندوں کے پیشے
آج تو شہرِ محبت کی فقط آب و ہوا لکھ
یوں چھپا سکتا ہے اپنے دور کی کم مائیگی تو
ایک گل کو گلستاں کہہ، اک بشر کو قافلہ لکھ
سو گئے سارے مسافر منزلیں محوِ سفر ہیں
پھر بیاضِ رہگزر میں آہٹوں کا رتجگا لکھ
پیاس آنکھوں میں اگا کر پانیوں کی نیتیں پڑھ
خواہشوں کے جسم پر اندھے کنویں کا ذائقہ لکھ
آرزو کی انگلیوں سے دھڑکنیں تحریر کر کے
اس نظر سے کہہ مِرے شہکار پر اک تبصرہ لکھ
مدتوں سے رہنے والے جانور قبضہ نہ کر لیں
گھر کی دیواروں پہ قاصر نام اپنا جا بجا لکھ
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment