بانسری درد کی جب سوز جگائے گی بہت
رات بھر تم کو مِری یاد ستائے گی بہت
یہ جو ہر سمت خموشی ہے اِسے مت چھیڑو
یہ اگر بول پڑے گی تو سنائے گی بہت
صورتِ خواب تمہیں دل میں بسائے رکھا
ہم کو اس خواب کی تعبیر رلائے گی بہت
میں نے مانگی ہے ستاروں سے چمکنے کی اَدا
جوت آنکھوں کی مِری تم کو جگائے گی بہت
کلمۂ شکر میں نامِ غمِ تنہائی کروں
دمِ آخر یہ مِرا ساتھ نبھائے گی بہت
جو غزل آج سنواری ہے تِری خوشبو سے
بعد مرنے کے مِری یاد دلائے گی بہت
اہلِ دنیا کو نہ معصوم سمجھنا رضیہ
لوحِ دنیا یہ تمہیں لکھ کے مٹائے گی بہت
رضیہ سبحان
No comments:
Post a Comment