Monday 19 October 2020

رات اک رنگ ہے اک راگ ہے اک خوشبو ہے

 رات اک رنگ ہے اک راگ ہے اک خوشبو ہے

مہرباں رات مِرے پاس چلی آئے گی

رات کا نرم تنفس مجھے چھو جائے گا

دودھیا پھول چنبیلی کے مہک اٹھیں گے

رات کے ساتھ مِرا غم بھی چلا آئے گا

اب مِرے خانۂ دل میں بھی چراغاں ہوگا

یونہی ہر شب جو پگھلتی ہے سیاہی شب کی

اک لرزتا ہوا سایہ سا چلا آتا ہے

جس کے سینے میں دھڑکتا ہے طلائی مہتاب

رات کے پیار میں گم ذہن اگر یہ پوچھے

کون ہو تم مِرے مہمان اندھیرے میں چھپے

چار اطراف بکھرتے ہوئے سناٹے میں

میرے افکار یونہی گونج کے رہ جاتے ہیں

ایسا لگتا ہے نہیں اور کوئی بھی موجود

بے کراں رات میں گھل جاتا ہے خود میرا وجود


فہمیدہ ریاض

No comments:

Post a Comment