Monday 19 October 2020

کرچیاں اتنی ہیں کم کم نظر آتا ہے مجھے

 کرچیاں اتنی ہیں، کم کم نظر آتا ہے مجھے

خواب کیا ٹوٹے کہ مدھم نظر آتا ہے مجھے

ہاتھ سے کرتا ہوں محسوس خد و خالِ طرب

کیسا اندھا ہوں کہ بس غم نظر آتا ہے مجھے

بوکھلایا ہوا پھرتا ہوں میں آنکھیں میچے

بیٹھے بیٹھے کوئی یک دم نظر آتا ہے مجھے

میں بھی کہہ سکتا ہوں اس ڈھلتی ہوئی رات کو دن

مسئلہ یہ ہے عزیزم نظر آتا ہے مجھے

یہ الگ بات کوئی اور ہے فاتح میرا

دل میں اب بھی وہی پرچم نظر آتا ہے مجھے

رکھتا جاتا ہوں سبھی زخموں پہ باری باری

اک نیا زخم، جو مرہم نظر آتا ہے مجھے


سعید شارق

No comments:

Post a Comment