اس سے بڑھ کر تو نہیں کوئی قیامت صاحب
عمر گزری نہ ہوئی شرحِ محبت صاحب
ہونے رخصت جو لگا دردِ محبت صاحب
ساز اک چھیڑ گیا پھر غمِ فرقت صاحب
اڑ گئے شاخِ تمنا سے یہ پنچھی کہہ کر
کھا گئی تیرا چمن گردِ کدورت صاحب
اس سے بڑھ کر تو نہیں کوئی قیامت صاحب
عمر گزری نہ ہوئی شرحِ محبت صاحب
ہونے رخصت جو لگا دردِ محبت صاحب
ساز اک چھیڑ گیا پھر غمِ فرقت صاحب
اڑ گئے شاخِ تمنا سے یہ پنچھی کہہ کر
کھا گئی تیرا چمن گردِ کدورت صاحب
چائے کے کپ کی تعریف ممکن نہیں
چائے کے کپ کی تعریف ممکن نہیں
آفریں آفریں، آفریں آفریں
تُو بھی چکھ لے اَگر تو کہے ہمنشیں
آفریں آفریں، آفریں آفریں
چائے کے کپ کی تعریف ممکن نہیں
سینے پہ کب سے ہاتھ ہے اور ہٹ نہیں رہا
میں ہجر کاٹتا ہوں مگر کٹ نہیں رہا
بالوں میں آ گئی ہے سفیدی اور ایک تُو
ایسا بسا ہے دل میں ذرا گھٹ نہیں رہا
اتنا بھی میری ذات پہ تُو بد گماں نہ ہو
میں پڑھ رہا ہوں یار تجھے رٹ نہیں رہا
عبث ہیں چاہے تُو جتنے بھی میرے چاؤ اُٹھا
خلوص ہے تو ٹھہر ورنہ رکھ رکھاؤ اٹھا
لُبھا گئی اسے میری پھٹی ہوئی پوشاک
امیر زادی کا مخمل سے پھر لگاؤ اٹھا
میں اپنی موج میں شائد یہاں ٹھہر جاؤں
مری کلائی سے تُو ہاتھ کا دباؤ اٹھا
محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے
ہماری سوچ سے دل تک بڑی لمبی مسافت ہے
چلو اب دیکھتے ہیں کہ کہاں سے یہ نظر لوٹے
جہاں میں مسندیں اب بے ہنر آباد کرتے ہیں
جبھی تو لے کے آنکھیں نم سبھی اہلِ ہنر لوٹے
میرے بدن کی آگ ہی جھلسا گئی مجھے
دیکھا جو آئینہ تو ہنسی آ گئی مجھے
میری نمود کیا ہے بس اک تودۂ سیاہ
کوندی کبھی جو برق تو چمکا گئی مجھے
جیسے میں اک سبق تھا کبھی کا پڑھا ہوا
اٹھی جو وہ نگاہ تو دہرا گئی مجھے
سوراخوں سے رستی سیاہی
جوتے میں اتنے سوراخ ہیں
جتنے منہ میں دانت نہیں
بغیر ازاربند کے شلوار
دھوتی بن گئی ہے
اور کُرتے میں جیب کا پیوند حسرت
پروردگار کوئی بھی ایسی خوشی نہ دے
جو غم سے بے نیاز ہو وہ زندگی نہ دے
پہلوئے تمکنت ہو عیاں جس سے اے خدا
میرے لبوں کو عمر بھر ایسی ہنسی نہ دے
اپنی جگہ انا ہے بڑی دل پذیر شئے
دنیا کو بھول جاؤں مگر وہ خودی نہ دے
میں فرد کسی اونچے گھرانے کا نہیں تھا
سو تجھ کو پتا میرے ٹھکانے کا نہیں تھا
جس روز اجل پہنچ گئی گھر پہ ہمارے
وہ وقت مِرے باپ کے جانے کا نہیں تھا
اس دور میں کی بھائی نے کنبے کی کفالت
بچپن کا زمانہ جو کمانے کا نہیں تھا
فراق
لبوں پہ جعلی منہدم مسکراہٹ چسپاں ہے
مگر
روح کو چھلنی کرنے والے
ناسور زخموں کی تاویل کرنا ممکن نہیں
آنکھیں قبرستان میں منتقل ہو چکی ہیں
کہیں صحرا کہیں سُوکھے شجر اچھے نہیں لگتے
مجھے اب خواب زاروں کے سفر اچھے نہیں لگتے
وفاؤں کا بھرم ٹُوٹے تو کیوں زندہ رہے کوئی
کہ جب دستار گِر جائے تو سر اچھے نہیں لگتے
جوابی خط میں اس نے یوں میرے بارے میں لکھا ہے
تمہیں بُرا بھی کہہ نہیں سکتے مگر اچھے بھی نہیں لگتے
تیرا دیدار کرنے لگ جاؤں
آنکھیں دوچار کرنے لگ جاؤں
تیری باتیں اگر کرے کوئی
میں اسے پیار کرنے لگ جاؤں
تیری تصویر گر میسر ہو
اس اسے اظہار کرنے لگ جاؤں
وہ سرِ دشت مِری پیاس بجھا دیتا ہے
موجِ دریا میں دوبارہ بھی پھرا دیتا ہے
دل مِرا پہلے محبت سے پریشان ہے اور
اک نیا شخص محبت کی صدا دیتا ہے
جو تمہیں مفت ملے، عشق نہیں آبِ سبیل
جوئے شیریں ہے یہ فرہاد کھپا دیتا ہے
دل کو رہینِ لذتِ درماں نہ کر سکے
ہم ان سے بھی شکایتِ ہجراں نہ کر سکے
اس طرح پھونک میرا گلستانِ آرزو
پھر کوئی تیرے بعد اسے ویراں نہ کر سکے
مہنگی تھی اس قدر تِرے جلووں کی روشنی
ہم اپنی ایک شام فروزاں نہ کر سکے
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
مہکے یہ گجرے
کتنے اچھے لگتے ہیں نا
چاہت کے تحفے
شاہدہ عروج خان
یوٹوپیا
ساری دنیا ختم ہو جائے
بس
ایک سنگلاخ پہاڑ بچ جائے
جس پر ایک درخت ہو
اس درخت پر بس ایک نرم دل
درد کی لہر تھی گزر بھی گئی
اس کے ہمراہ چشم تر بھی گئی
اک تعلق سا تھا سو ختم ہوا
بات تھی ذہن سے اتر بھی گئی
ہم ابھی سوچ ہی میں بیٹھے ہیں
اور وہ آنکھ کام کر بھی گئی
ایک شخص کو
شہر کے بیچوں بیچ کھڑا کر دیا جاتا ہے
تاکہ کوے
شہریوں کے سر نہ نوچ سکے
ایک رسی پر
ننگے پیر چلتے ہوئے
دیپ جلایا پانی میں
پھول کھلایا پانی میں
سورج اور پرندوں کا
منظر آیا پانی میں
ننھی منی چڑیوں نے
شور مچایا پانی میں
دماغ
ڈر لگتا ہے
مجھے
ان لوگوں سے
جن کے دل میں بھی
دماغ ہوتا ہے
رعنا حسین چندا
تھکا ہوا دریا
باہر دیکھو کون مرا ہے؟
"ذرا رک جاؤ"
گولیوں کو رک جانے دو
برستی بارش اور چلتی گولیوں کے درمیان
باہر نہیں نکلنا چاہئے
ہزار شکوے کرو، پاس آ کے بات کرو
یہ کیا کہ سارے جہاں کو سنا کے بات کرو
اگر علیحدگی ہی کی ٹھان لی ہے صنم
تو اِک گلہ نہ کرو کُھل کھلا کے بات کرو
ہر آن تیوری پہ تیوری چڑھائے رکھتے ہو
کبھی تو ہم سے صنم کِھل کِھلا کے بات کرو
لاکھ جہاں میں جھوٹوں کی من مانی ہے
سچائی کی اپنی ریت پرانی ہے
لب پر آہ مسلسل آنکھ میں پانی ہے
تنہائی کا ہر لمحہ نقصانی ہے
شور ہمیشہ رہتا ہے اس کوچے میں
دل ہے یا سینے میں اک زندانی ہے
پھر وہی شب کے سرابوں کا چلن
پھر وہی خواب نما
شب کے سرابوں کا چلن جاری ہے
شب کہ اس بار صفیرانِ چمن
اور بھی کچھ بھاری ہے
گل پہ شبنم پہ عنادل پہ
جینے کی ہو بات تو بولو ورنہ، چھوڑو جانے دو
مرنے کی باتوں پہ بھی کیا مرنا، چھوڑو جانے دو
اک مدت کے بعد اچانک مل کر باتیں کیا کرتے
اتنا کچھ کہنے کو تھا کہ سوچا، چھوڑو جانے دو
آنکھوں ہی آنکھوں میں کتنے منظر بنتے تھے اور پھر
منظر کش آنکھوں سے بہتا جھرنا، چھوڑو جانے دو
شاید مِری فریاد سنائی نہیں دیتی
قدرت جو مجھے حکم رہائی نہیں دیتی
تھا پہلے بہت شورِ نہاں خانۂ دل میں
اب تو کوئی سسکی بھی سنائی نہیں دیتی
خوابوں کی تجارت میں یہی ایک کمی ہے
چلتی ہے دُکاں خوب، کمائی نہیں دیتی
پنجرہ ہے
اک شہزادی کی خواب سرا میں
سونے کا اک پنجرہ ہے
اک بے سُر بے رنگ پنچھی تها
جو گیتوں سے آباد ہوا
جو شہزادی کے رنگوں سے ایجاد ہوا
سامنے جب کوئی بھرپور جوانی آئے
پھر طبیعت میں مِری کیوں نہ روانی آئے
کوئی پیاسا بھی کبھی اس کی طرف رخ نہ کرے
کسی دریا کو اگر پیاس بجھانی آئے
میں نے حسرت سے نظر بھر کے اسے دیکھ لیا
جب سمجھ میں نہ محبت کے معانی آئے
کسی بھی وہم کو خود پر سوار مت کرنا
خیال یار کو گرد و غبار مت کرنا
خلاف واقعہ کچھ بھی ہو سن سنا لینا
یہی طریقہ مگر اختیار مت کرنا
تمہاری آنکھ میں نفرت ہو دوسروں کیلئے
تم اپنی ذات سے اتنا بھی پیار مت کرنا
زندگی ریگِ دہشت پہ کمھلائے گی، جی نہیں مانتا
دِل میں جراُت کبھی گھر نہ کر پائے گی، جی نہیں مانتا
میں نے مانا سمندر ہے رُت ہجر کی، پر کنارے تلک
موج کوئی مچل کر نہیں آئے گی، جی نہیں مانتا
خواب ہی کے کنارے تمنا کی پرواز ہے رات، دن
راہ ملنے کی کوئی نہ بن پائے گی، جی نہیں مانتا
کل رات میں شکستِ ستمگر سے خوش ہوا
وہ رو پڑا تو دل مِرا اندر سے خوش ہوا
دریا تھا، چاند رات تھی اور اس کا ساتھ بھی
لیکن میں ایک اور ہی منظر سے خوش ہوا
خوش وہ ہے جس کے واسطے دنیا سراب ہے
اس کی خوشی بھی کیا جو میسر سے خوش ہوا
آج آئے ہیں کل جانا ہے پھر عشق کو رُسوا کون کرے
دو روزہ دنیا ہے یہ، تو دنیا کی تمنا کون کرے
مجبور نہیں مختار سہی خودداری کو رُسوا کون کرے
جب موت ہی مانگے سے نہ ملی جینے کی تمنا کون کرے
اس لذتِ غم کا کیا کہنا، وہ یاد تو آتے رہتے ہیں
غم دینے والے کے صدقے اب غم کا مداوا کون کرے
لیکن تم ان سب سے خوبصورت ہو
میں زیادہ سے زیادہ ایک تتلی کو سوچ سکتا ہوں
تمہارے رنگوں کو دیکھتے ہوئے
یا کسی چڑیا کو
تمہاری نزاکت کو تصور کرتے ہوئے
تمہاری سبک رو شرارتیں
بس ایک لمحے میں دل کی قیمت نکال دی تھی، مثال دی تھی
کہ خاک لے کر ہوا میں اس نے اچھال دی تھی، مثال دی تھی
جو دُھن پیانو پہ تم نے چھیڑی، ہماری سنگت سے رچ رہی تھی
وہ سازِ دل کا تھا استعارہ،۔ جو تال دی تھی، مثال دی تھی
میں اس قبیلۂ مصر سے ہوں، کہ جس کی نِسبت حیا رہی ہے
تمہارے شانوں پہ اوڑھنے کو جو شال دی تھی، مثال دی تھی
مرنے سے گھبرانا کیسا موت تو سب کو آنی ہے
دنیا سے کیا پیار بڑھانا، دنیا کیا ہے، فانی ہے
کچھ آنکھوں میں دھوپ کھلی ہے، کچھ میں رات اندھیری سی
اپنی اپنی خشکی سب کی،۔ اپنا اپنا پانی ہے
کتنے برسوں بعد وہ مجھ سے محفل میں ٹکرایا ہے
ہونٹوں پر مسکان ہے لیکن آنکھوں میں ویرانی ہے
محبت کا دھواں آنکھوں میں پانی چھوڑ جاتا ہے
کسی رستے سے غم گزرے نشانی چھوڑ جاتا ہے
وہ جتنی بار بھی ملتا ہے، پہچانا نہیں کرتا
مگر آنکھوں میں تصویریں پرانی چھوڑ جاتا ہے
اسی باعث تو ہم بے ساختہ ہنسنے سے ڈرتے ہیں
کبھی کا قہقہہ بھی نوحہ خوانی چھوڑ جاتا ہے
آسماں کی رفعتوں سے طرز یاری سیکھ لو
سر اٹھا کر چلنے والو خاکساری سیکھ لو
پیش خیمہ ہیں تنزل کا تکبر اور غرور
مرتبہ چاہو تو پہلے انکساری سیکھ لو
خود بدل جائے گا نفرت کی فضاؤں کا مزاج
پیار کی خوشبو لٹاؤ مشکباری سیکھ لو
عدم قبولیت
عجیب حادثہ ہوا
علیل ماں جو اسپتال میں پڑی
کئی دنوں سے چھٹپٹا رہی تھی
ایکا ایک جیسے سو گئی
تو آسماں کی سمت دیکھ کر یتیم طفل چیخ چیخ اٹھے
اس شعلہ خو کی طرح بگڑتا نہیں کوئی
تیزی سے اتنی آگ پکڑتا نہیں کوئی
وہ چہرہ تو چمن ہے مگر سانحہ یہ ہے
اس شاخ لب سے پھول ہی جھڑتا نہیں کوئی
خود کو بڑھا چڑھا کے بتاتے ہیں یار لوگ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
لمحات کا دکھ
چاند کی روشن سکرین کو تکتے
میں نے دیکھا
گیسولین پر آگ کی چنگاری پڑنے کا سا لمحہ
جس میں تم آن ملے تھے
پہلی بار کا وہ کنکشن
جُھوٹی باتیں جُھوٹے لوگ
سہتے رہیں گے سچے لوگ
دو پیسے میں مہنگے ہیں
کرداروں کے سستے لوگ
میری گزارش کیا سنتے
اونچے قد کے چھوٹے لوگ
پدم کے آخری ہیرو محمد امین سندوس کے نام (نوحہ)
پدم کے ہیرو
تری جدائی پہ یاد آیا
وہ خواب تیرا
جو تھا ادھورا
وہ ہے ادھورا
ہم اُس کی تعبیر چاہتے ہیں
کتنا رویا ہوں میں کل رات تمہیں کیا معلوم
رات کے ساتھ گئی بات تمہیں کیا معلوم
وہ جو کہتا تھا اسے پیار فقط مجھ سے ہے
کیا کِیا اس نے مِرے ساتھ تمہیں کیا معلوم
چاہتا ہوں میں بہت اس کو بھلا دوں لیکن
دل نہیں سنتا مِری بات تمہیں کیا معلوم
پھر اندھیری راہ میں کوئی دِیا مِل جائے گا
تم اکیلے گھر سے نِکلو، قافلہ مل جائے گا
تنگ ظرفی خُشک کر ڈالے گی دریا دیکھ لے
ہم کو کیا کوئی سمندر دوسرا مل جائے گا
کر رہا ہوں میں تعاقب گردشِ ایّام کا
اک نہ اک دن زندگی تیرا پتا مل جائے گا
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
کیا کوئی فیصلہ بھی کرنا ہے
مجھ کو اب زندگی کے بارے میں
فیصلہ اس کا اب بھی باقی ہے
فوقیہ مشتاق
جب بچھڑتے ہیں
تو یوں لگتا ہے
جیسے جسم کا حصہ کوئی کٹ کر
صدا کرتا ہے
اور جیسے ہوا کی سسکیاں کہتی ہیں
ہاں تم میرے اپنے تھے
کتنا بے کار تمنا کا سفر ہوتا ہے
کل کی امید پہ ہر آج بسر ہوتا ہے
یوں میں سہما ہوا گھبرایا ہوا رہتا ہوں
جیسے ہر وقت کسی بات کا ڈر ہوتا ہے
دن گزرتا ہے تو لگتا ہے بڑا کام ہوا
رات کٹتی ہے تو اک معرکہ سر ہوتا ہے
وصل بھی ہجر تھا وصال نہ تھا
مِل رہے تھے، مگر خیال نہ تھا
مِل رہے تھے کہ دونوں تنہا تھے
گفتگو میں بھی قیل و قال نہ تھا
میرے اور اس کے درمیان ابھی
کوئی بھی سلسلہ بحال نہ تھا
وفا
میں نے جو شعر تمہارے لیے لکھے
وہ کبھی کسی اور کو نہیں سنائے
میں نے جو نظر تم پر ڈالی
اس نظر کو ہزار دلکش چہرے ترستے رہے
میں نے جس جس خواب میں تمہیں دیکھا
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
اس بستی کے لوگ
اپنے ساتھ لگا بیٹھے ہیں
جانے کس کا روگ
شاہدہ عروج خان
ہائے اللہ
احد
تم بھی اکیلے ہو؟
الصمد
میں نہیں ہوں، تالی
تالی، جو رب کی دی ہوئی نعمتوں میں
اپنے اپنے ستارے
مجھے بھیڑ اچھی نہیں لگتی
راستوں میں نہ میدانوں میں
شادیوں میں نہ جنازوں میں
بس میں سفر سے پیدل چلنا بہتر ہے
میں نائیوں کی دُکانوں پر نہیں جاتا
کوئی نہیں ہے
کوئی ہے جو خدا کے آنسو پونچھے
کوئی نہیں ہے
ماں چُپ ہے
خدا کی آواز چلی گئی ہے
ماں بیٹے کی موت کی خبر سن کر بہری ہو گئی
رعنائیاں غضب کی غضب کا جمال تھا
ان پر نظر کا ٹکنا تبھی تو محال تھا
یوں بیخودی میں اٹھتے رہے پاؤں جو مِرے
ہر رقص میں یہ جذبِ عطا کی دھمال تھا
میری یہ خود سری تو اثاثہ بنا مِرا
پروازِ شوق میرا یہ اپنی مثال تھا
بے کلی
آج کل
میں ہر طرح
برت رہی ہوں
زندگی کو
ہنس کر
کون آیا ہے یہ سر بہ سر روشنی
ہو گیا آج تو گھر کا گھر روشنی
تیرگی راج کرتی تھی چاروں طرف
راہبر بن گئی اب مگر روشنی
ایک دن جائیں گے ہم بھی پی کے نگر
ہم سے لپٹے گی تب دوڑ کر روشنی
بہت ممکن تھا
میرے پاؤں، میرے زیست کے
کانٹے نکل جاتے
بہت ممکن تھا
میری راہ کے پتھر پگھل جاتے
جو دیواریں میرے رستے میں حائل تھیں
درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ
کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلہ دے جاؤ
یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں
میری راتوں کو ستاروں کی ضیا دے جاؤ
ایک بار آؤ کبھی اتنے اچانک پن سے
نا امیدی کو تحیر کی سزا دے جاؤ
بیٹھے ہیں اب تو ہم بھی بولو گے تم نہ جب تک
دیکھیں تو آپ ہم سے ناخوش رہیں گے کب تک
اقرار تھا سحر کا ایسا ہوا سبب کیا
جو شام ہونے آئی اور وہ نہ آیا اب تک
محفل میں گل رخوں کے آیا جو وہ پری رو
ہو شکل حیرت اس کی صورت رہے وہ سب تک
پھروں میں تیرے لیے دربدر، نصیب مِرا
میرے خدا نے بنایا سفر،۔ نصیب مرا
میرا وجود تھا پانی میں چاند کی صورت
سمندروں نے بنایا بھنور، نصیب مرا
بس ایک لمحے کو پلکیں جھپک گئیں میری
وہ مجھ کو مل تو گیا تھا، مگر نصیب مرا
اے زمانے کے خداؤ
میں تمہارے ہر فیصلے کے خلاف
بغاوت کا علم بلند کرتا ہوں
میں صرف اور صرف محبت کا علم بلند کروں گا
میں ان پُرسان حال لوگوں کا مسیحا بنوں گا
جو پل پل لمحہ لمحہ گُھٹ گُھٹ کر جی رہے ہیں
میں خاک میں ملے ہوئے گلاب دیکھتا رہا
اور آنے والے موسموں کے خواب دیکھتا رہا
کسی نے مجھ سے کہہ دیا تھا زندگی پہ غور کر
میں شاخ پر کھلا ہوا گلاب دیکھتا رہا
کھڑا تھا میں سمندروں کو اوک میں لیے ہوئے
مگر یہ شخص عجیب تھا سراب دیکھتا رہا
نکلا ہے چاند، شب کی ملاقات بھی گئی
یعنی، حضور! طرزِ عنایات بھی گئی
اس نے سبھی وصال کے وعدے، بھلا دئیے
سو بات کی تھی ایک جو، وہ بات بھی گئی
اس نے کسی کو اپنا مقابل بنا لیا
شہ تو گئی تھی پہلے ہی، اب مات بھی گئی
آسمان اور ساگر جیسی نیلی آنکھوں میں
جادو سی کیا چیز ہے جانے اس کی آنکھوں میں
سرگوشی سی کرتا لہجہ، بوجھل سی آواز
ہلکا ہلکا وصل کا نشہ، گہری آنکھوں میں
کب سے سوچی باتیں کیسے یاد نہیں رہتیں
میری آنکھوں سے تم دیکھو اپنی آنکھوں میں
میں تو عورت ہوں، مجھے اپنا بھرم رکھنا ہے
دل کو ہر حال میں ماٸل بہ کرم رکھنا ہے
میری فطرت میں تو پہلے سے وفا ہے شامل
کیوں زمانے کو مِرا سر بھی یہ خم رکھنا ہے
دل میں دریا ہے مِرے اور لبوں پر شبنم
حکم کیوں ہے کہ ان آنکھوں کو بھی نم رکھنا یے
مِری خواہش، مِری حسرت، کوئی معنی نہیں رکھتی
میں رکھوں جس سے جو نسبت، کوئی معنی نہیں رکھتی
سمجتا تھا وہم پہلے،۔ یقین اب ہو گیا مجھ کو
تِرے آگے مِری چاہت کوئی معنی نہیں رکھتی
ادھر میری طرف دیکھو میں تم سے ہی مخاطب ہوں
مِرے جذبات کی شدت کوئی معنی نہیں رکھتی
پولیگیمی آف لو
تم کہاں بچھڑ گئی تھی
کالی آنکھوں کے گرد بلیک ہول کی راکھ بچھا کر
کالے بال کھولے
اس تاریکی میں کس کو شکار کرو گی
محبت یا سیکس
جو مال غریبوں کا دن رات لٹا ہو گا
تاریک لحد میں کیا انجام ہوا ہو گا
کیا حال ہوا ہو گا اے یار ہوا ہو گا
جب بھوک کا سورج اس کے گھر میں اُگا ہو گا
دہلیز پہ یادوں کے دستک تو دیا ہو گا
جب جاکے کہیں یارا دروازہ کھلا ہو گا
آج ہی بس نہیں، اکثر بھی تو ہو سکتا ہے
قد مِرا، تیرے برابر بھی تو ہو سکتا ہے
ضبط کی قید میں وہ شخص پڑا ہے کب سے
وہ کبھی قید سے باہر بھی تو ہو سکتا ہے
دستِ قاضی میں بظاہر جو قلم ہے یارو
تیر، تلوار یا خنجر بھی تو ہو سکتا ہے
مجھے اب کسی سے محبت نہیں ہوتی
میرے پاس دل بہلانے کو بہت سے لوگ ہیں
راتیں جاگنے کے لیے کئی کتابیں جمع کر رکھی ہیں
دن میں کسی نہ کسی بات پر ہنس لیتی ہوں
مجھے اب کسی سے شکایت نہیں ہوتی
تم بدل گئی ہو ایسے جملے بکثرت سننے کو ملتے ہیں
کیا کہوں تیرے تغافل نے، حیا نے کیا کیا
اِس ادا نے کیا کیا اور اس ادا نے کیا کیا
بوسہ لے کر جان ڈالی غیر کی تصویر میں
یہ اثر تیرے لبِ معجز نما نے کیا کیا
یاں جگر پر چل گئیں چھریاں کسی مشتاق کی
واں خبر یہ بھی نہیں ناز و ادا نے کیا کیا
زباں پہ آہ نہ سینے پہ داغ لایا میں
تمہاری بزم سے کیا نامراد آیا میں
سراغ مہر و محبت کا ڈھونڈیو نہ کہیں
کہ ان کی راکھ ہوا میں بکھیر آیا میں
زمیں کی شمعوں سے جب دل کو روشنی نہ ملی
فلک سے چاند ستارے اتار لایا میں
عین ممکن تھا کسی رنگ میں ڈھالے جاتے
گر تِرے درد مِرے دل سے سنبھالے جاتے
میں جو آدابِ محبت سے شناسا ہوتا
تیری محفل میں دئیے میرے حوالے جاتے
تم اگر کرتے حمایت میں مِری لفظ ادا
میری ہر بات میں کیوں نقص نکالے جاتے
نہ وہ گھر رہا نہ وہ بام و در، نہ وہ چلمنیں نہ وہ پالکی
مگر اب بھی میری زباں پہ ہے وہی داستاں سن و سال کی
چلو بال و پر کو سمیٹ لیں کریں فکر اب کسی ڈال کی
یہ غروب مہر کا وقت ہے یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
سبھی موسموں سے گزر گیا کوئی بوجھ دل پہ لئے ہوئے
مجھے راس آئی نہ رُت کوئی نہ وہ ہجر کی نہ وصال کی
جیون بُنت
کہیں سے اُدھڑا، کہیں پھٹا سا جیون میرا
جیون کے اس ٹاٹ میں، میں نے
مخمل جیسے کچھ خوابوں کے پیوند ٹانکے
من سنجوگ کے مخمل ٹکڑے
جیون ٹاٹ میں
جو یہ کہتے تھے کہ مر جانا ہے
ان سے جینے کا ہُنر جانا ہے
کس نے سوچا تھا کہ خُود سے مل کر
اپنی آواز سے ڈر جانا ہے
حادثا موت نہیں انساں کی
حادثہ خواب کا مر جانا ہے
مرگِ شب و روز
ایک سیاہ رنگ کی بارش ہے
جو روز ہمارے گھر کے صحن میں برستی ہے
جو روز ہمارے بچوں کو نہلاتی ہے
ایک گھمبیر دھواں ہے
جو ہمارے کمرے سے باہر نہیں نکلتا
اور ہمارے پھیپھڑوں میں جگہ بناتا ہے
مجھ کو تِرا خیال، بڑی دیر تک رہا
پھر اس میں اعتدال، بڑی دیر تک رہا
اس کو وفورِ غم نے ستایا تھا، عمر بھر
مجھ کو یہی ملال، بڑی دیر تک رہا
میں نے کہا کہ دِید کی خیرات ہو عطا
میرا یہی سوال، بڑی دیر تک رہا
کچھ دل کے اضطراب کا ہی حق ادا بھی ہو
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
اس دل کو چاہیے ہے کوئی ایسا دل نشیں
جس کو ہمارے درد سے صدمہ ذرا بھی ہو
ممکن ہے ہم سفر ملے پھر درد آشنا
بانٹے وہ درد میرے سخن آشنا بھی ہو
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
کس منظر کو ڈھونڈ رہی ہو
سورج کب کا ڈوب چکا ہے
رات بھی آج اماوس کی ہے
فوقیہ مشتاق
اپنی نسیں کاٹنے سے بہتر ہے
گمان کے ان درختوں کو کاٹا جائے
جن کے سائے میں بیٹھ کر
جنت کے بارے سوچتے
اور تھک کر سو جاتے ہیں
سوچنے والوں کو جب نیند آتی ہے
دیوار اٹھانے کو ہیں ماں جائے ہمارے
اورمصلحت اندیش ہیں ہم سائے ہمارے
ہر دشت کو انکار ہے وحشت سے ہماری
ہر اشک نے بس ہونٹ ہی ترسائے ہمارے
ہم کھینچ کے رکھتے ہیں طنابیں کہ بدن میں
آئے نہ کوئی جھول بنا لائے ہمارے
مرکز گریز خواب کی آہٹ پہ بات ہو
یعنی شبِ خمار کی چوکھٹ پہ بات ہو
جاگے تو آفتاب کی برکات پر کلام
سوئے تو کائنات کی کروٹ پہ بات ہو
پھر گفتگو میں آ گئیں پرکھوں کی پگڑیاں
میں چاہتا بھی تھا تِرے گھونگھٹ پہ بات ہو
نیا سال
بدلتے سال کا اِک لمحۂ نحیف تریں
تمہارے ہِجر کے ایامِ رفتگاں لے کر
تمہارے وصل کی امیدِ جانفزا بن کر
م<رے نصیب کے تارے کو ڈھونڈنے نکلا
تمہاری یاد کے سب رتجگے تمہاری قسم
میری آنکھوں میں رنگِ خوشی دیکھیۓ
اس کی خوشبو کی جلوہ گری دیکھیۓ
وہ مِرے ساتھ ہو تو ہر اک گام پر
مجھ میں اُتری ہوئی زندگی دیکھیۓ
اس کی آواز کانوں میں آئے تو پھر
کیسے کھلتی ہے دل کی کلی دیکھیۓ
ناسٹلجیا 2
ٹھٹھرتی شام کے پچھلے پہر میں
گھٹائیں رقص کر کے جا چکیں تو
ذہن کو رات کی رانی کی خوشبو
فکر فردا سے پکڑ کر
یادِ ماضی کی طرف واپس لائی
کمال شوق سفر بھی ادھر ہی جاتا ہے
کسی سفر کا مسافر ہو گھر ہی جاتا ہے
وہ آدمی ہی تو ہوتا ہے غم کی شدت سے
ہزار کوششیں کر لے بکھر ہی جاتا ہے
وہ ہجر ہو کہ تِرے وصل کا کوئی لمحہ
وہ مستقل نہیں ہوتا گزر ہی جاتا ہے
شناسائے تار رگ جاں نہیں تھا
مجھے اپنے ہونے کا عرفاں نہیں تھا
وہاں میں نے خوشبو کی بنیاد رکھی
جہاں پھول کھلنے کا امکاں نہیں تھا
تِرے ظرف کی آزمائش تھی ورنہ
مجھے زیر کر لینا آساں نہیں تھا
جہاں والوں کو جانے کیوں محبت ہے حسینوں سے
مگر مجھ کو نجانے کیوں شکایت ہے حسینوں سے
صریحاً کھلتے رہتے ہیں لوگوں کے دلوں سے بس
ہمیں بس ایک ہی اب تو شکایت ہے حسینوں سے
جہاں بھی مجھ سے ملتے ہیں نگاہیں پھیر لیتے ہیں
بہت پہلے سے مجھ کو تو عداوت ہے حسینوں سے
میرے خوابوں کو سمندر میں بہا دیتا ہے
وہ محبت بھی فرائض میں نبھا دیتا ہے
فیصلہ تم نے ہی کرنا ہے مگر جانے کیوں
کوئی لمحہ تمہیں منصب سے ہٹا دیتا ہے
میرے تو اپنے رویے ہی مِرے دشمن ہیں
جو بھی ملتا ہے وہ جینے کی دعا دیتا ہے
سنتِ قیس ادا کر کے میں جب گھر آیا
شہر کا شہر مجھے دیکھنے باہر آیا
تو یہ کہتا تھا محبت مجھے کها جائے گی
دیکھ، میں پورے کا پورا ہی پلٹ کر آیا
اتنا آسان تھا کب خود سے رہائی پانا
کتنی دیواریں گرائیں تو یہ در آیا
کچے گھر کی دیواروں پر
اپنے کچھ موہوم خیالوں کے خامے سے
نقش بناتا رہتا ہوں
کچھ بے معنی سے نقش
جنہیں منظوم کروں تو
تاج محل کی چھوٹی سی تصویر بنے
کہیں سے آگ چرا کر، کہیں لگا دینا
ہمیں بھی آ ہی گیا، بات کو ہوا دینا
گئے دنوں میں مجھے یہ ہنر بھی آتا تھا
کہ جس کو ہاتھ لگانا،۔ خدا بنا دینا
ہر اک فقیر کی گالی دعا نہيں ہوتی
کسی کو شک ہو تو اس کو مِرا پتا دینا
ڈوب گیا ہے ایک ستارا آنکھوں میں
ٹھہر گیا ہے نقش تمہارا آنکھوں میں
پتھرائی ہیں آنکھیں غم کی شدت سے
رکا ہوا ہے موسم سارا آنکھوں میں
وہ لوگوں کے ساتھ ہنسی میں شامل تھی
پھیل گیا لیکن مسکارا آنکھوں میں
دنگے
مجھے بس یہ سمجھنا ہے
کوئی دنگوں کا بھی کیا فلسفہ ہے
یہ دنگے کیسے ہوتے ہیں
انہیں کیا کوئی بھڑکاتا ہے، یا خود سے بھڑکتے ہیں
یہ کیسے لوگ ایک دن بھیڑ کی صورت میں ڈھلتے ہیں
جتنے الم ہیں میرے دلِ ناتواں کے پاس
اتنے الم تو ہوں گے نہ کون و مکاں کے پاس
آزار ہیں، غضب ہیں، مظالم ہیں، قہر ہیں
کیا کچھ نہیں ہمارے لیے آسماں کے پاس
کیسے ہو کوئی وصل کی تدبیر کارگر؟
سو حیلے اور بہانے ہیں اس بدگماں کے پاس
جہاں سے ہم جدا ہوئے
جیسے
ارتقا کی بھول بھلیوں میں
ایک نوع دوسری سے جدا ہوتی ہے
جیسے
ہومو سیپینز سے نےاندرلز جدا ہوئے
اور بڑے ببونز سے ہمارے جیسے انسان
جیسی ہے وہ ہمیں تو، محبوب سی لگے ہے
سب روشنی اسی سے منسوب سی لگے ہے
پھر موسم تمنا،۔ بارانِ اشک لایا
خوابوں کی ہر خیاباں مرطوب سی لگے ہے
اس بات کا حوالہ بدلا گیا ہے شاید
ناخوب تھی جو پہلے اب خوب سی لگے ہے
لبوں کی جنبش نوائے بلبل ہے شوخ لہجہ تِرا قیامت
دراز قامت غزال آنکھیں گلاب چہرہ ترا قیامت
گھٹائیں زلفیں خمار پلکیں مہین آنچل پہ ماہ و انجم
سہانی راتوں کی چاندنی میں ہے چھت پہ جلوہ ترا قیامت
زمین دل پر ادائے دلبر چلائے نشتر اٹھائے محشر
نظر اٹھانا نظر جھکانا ہر ایک حربہ ترا قیامت
ہونٹوں پہ اگرچہ مِرے مسکان سجی ہے
اب بھی مِری پلکوں پہ تو ہلکی سی نمی ہے
آ کر کوئی بیٹھا ہے خیالوں میں جو اس دم
آنکھوں کی یہ برسات ذرا دیر رکی ہے
میں خود ہوں کہیں اور دلِ غم دیدہ کہیں اور
جذبات میں احساس میں اک برف جمی ہے
بلیک میل
ہم سب
ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں
ہاضمے کا چُورن لیے بغیر
حرام خوری کے
دستر خوان پر بیٹھے دیکھ رہے ہیں
خدا بذریعہ نظم
خدا کو سمجھنا بہت آسان ہے
بس ایک چھوٹی سی نظم لکھیے
میں نے ایک نظم تخلیق کی
پھر اسے پوسٹ کر دیا
پھر اس کے لائکس اور کمنٹس کو
ماں جو بیوی تھی
گلی میں پیار سے دیکھتی گمنام حسینہ
ہماری کمزوریوں سے واقف ہے
وہ ہمیں اپنے جال میں بن لے گی
ہم اس لمحے کی قید میں ہیں
وہ جانتی ہے کہ اس کی غفلت ہماری جان لے گی
سوال ہی کیوں
دیوار پہ چڑھتی بلی
اور نظم میں مشترک
بھوک ہو سکتی ہے
یا تجسس
یا پاگل پن
کئی عذاب رتوں کا عتاب باقی ہے
کچھ آرزوؤں کا بھی احتساب باقی ہے
یہ کیا کہ شب کی اسیری میں قید ہو جائیں
یقیں ہے جبکہ رخِ ماہتاب باقی ہے
پڑاؤ ڈال رہے ہیں سحر کے اگلے قدم
مِری زمیں میں ابھی اضطراب باقی ہے
چل بسا جعفر بلوچ
موت کیسے زندگی کو آ کے لیتی ہے دبوچ
ہو غلط یا رب! سُنا ہے چل بسا جعفر بلوچ
مُنفرد وہ شخص تھا اور مُنفرد اس کی تھی سوچ
چل بسا جعفر بلوچ
اس میں کیا شک ہے، وہ شاعر تھا نہایت ارجمند
کنزِ مخفی کے گُہر، اور انجمِ فکرِ بلند
ظُلمتیں چھٹنے کو آغاز سحر کافی ہے
سر جھُکانے کے لیے ایک ہی در کافی ہے
کوئی تلوار اٹھاؤ،۔ نہ ہی نیزہ پکڑو
قتل کرنے کو صنم تیر نظر کافی ہے
میرے روکے نہ رکے گا تو بھلا کیوں روکوں
اب بچھڑنے کو تِرا عزمِ سفر کافی ہے
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
وہ کناروں کے درمیان دریا
مجھ کو کوئی رقیب لگتا ہے
ہم کنارے ہیں تو دریا کون ہے؟
فوقیہ مشتاق
ذکر کرتے ہیں اپنے ماضی کا
دوست ملتے ہیں جب پرانے دو
اے دوست! چند لمحے جو گزرے ہیں تیرے ساتھ
ان کو تمام عمر بھلایا نہ جائے گا
تم نے پوچھی ہے جو میری شام کی مصروفیت
دوست آ جاتے ہیں اکثر اپنے اپنے کام سے
جاتے سال کی آخری شام
چھوٹ رہا ہے
ہاتھ تمہارا
اکھڑ رہے ہیں پاؤں
لپٹ لپٹ کر روتی ہے
جب دھوپ سے گہری چھاؤں
اچھا تو تم ایسے تھے
دور سے کیسے لگتے تھے
ہاتھ تمہارے شال میں بھی
کتنے ٹھنڈے رہتے تھے
سامنے سب کے اس سے ہم
کھنچے کھنچے سے رہتے تھے
آبلہ
وہ رات کتنی عجیب تھی
کٹ نہیں رہی تھی
کہ وقت ہی جیسے رک گیا تھا
زبان چپ تھی
نگاہیں اک داستان محرومیٔ تمنا
بعد نمود کچھ نہ رہا باغباں کے پاس
بیٹھا ہے کس خیال میں گم گلستاں کے پاس
وہ لالہ فام شبنمی گُل رُو وہ شوخ شوخ
یاد بہار لوٹ کے آئی خزاں کے پاس
بستی اجاڑ ہو گئی بس اس خیال سے
دل ہی نہ ہو گا دل کے میرے پاسبان کے پاس
ترک الفت میں بھی اس نے یہ روایت رکھی
روز ملنے کی پرانی وہی عادت رکھی
تُو گیا ہے تو پلٹ کر نہیں پوچھا میں نے
ورنہ برسوں تِری یادوں کی امانت رکھی
کل اچانک کوئی تصویر بنی کاغذ پر
مدتوں سب سے چھپا کر تیری صورت رکھی
گشتی لڑکی (+18)
وڈیو میں دو ننگے تن ہیں
کچھ بوسے ہیں
ہِلتا بیڈ ہے
سِین گرم ہے
لڑکی کی مخمل چھاتی میں
تُو دھوکا دیتا رہا بار بار بھاڑ میں جا
اے میرے دوست مِرے غمگسار بھاڑ میں جا
نہیں ہے کُچھ بھی مِرے پاس اب لُٹانے کو
تُو مجھ کو بُھول جا مطلب کے یار بھاڑ میں جا
تُو مشکلوں میں مِرا ساتھ چھوڑ جاتا تھا
تُو مشکلوں میں مجھے مت پکار بھاڑ میں جا
ہم اہل خوف
یہی تھکن کہ جو ان بستیوں پہ چھائی ہے
اتر نہ جائے پرندوں کے شہپروں میں بھی
یہ ٹوٹے پھوٹے مکانات اونگھتے چھپر
چراغ شام کی دھندلی سی روشنی کے امیں
نہ ان کا یار کوئی ہے نہ کوئی نکتہ چیں
نہ جانے کب کوئی دست ستم ادھر آ جائے
اسے بارشوں نے چرا لیا کہ وہ بادلوں کا مکین تھا
کبھی مڑ کے یہ بھی تو دیکھتا کہ مِرا وجود زمین تھا
وہی ایک سچ تھا اور اس کے بعد کی ساری تہمتیں جھوٹ ہیں
مِرے دل کو پورا یقین ہے وہ محبتوں کا امین تھا
اسے شوق تھا کہ کسی جزیرے پہ اس کے نام کا پھول ہو
مجھے پیار کرنا سکھا گیا مِرا دوست کتنا ذہین تھا
بے ثبات کی دنیا موسموں میں اتری ہے
پھول بن کے آئی ہے
گلشنوں میں اتری ہے
آنسوؤں میں اتری ہے
دل میں کچھ برس جی کر آنگنوں میں اتری ہے
چل دئیے خطا بن کر
اس طرح ستایا ہے، پریشان کیا ہے
گویا کہ محبت نہیں، احسان کیا ہے
تجھ کو ہی نہیں مجھ کو بھی حیران کیا ہے
اس دل نے بڑا ہم کو پریشان کیا ہے
سوچا تھا کہ تم دوسروں جیسے نہیں ہو گے
تم نے بھی وہی کام مِری جان! کیا ہے
آدھا حصہ بھیج رہا ہوں صرف کہانی کاروں پر
باقی لعنت سچ کو روکنے والے سب کرداروں پر
جانے کیا آفت اتری ہے دل کو چین نہیں آتا
درگاہوں پر دھاگے باندھے منت دی درباروں پر
سارے جنگل چھان لیے ہیں سارے صحرا دیکھ لیے
دنیا پھر بھی تنگ رہی ہے تیرے تابعداروں پر
گاؤں سے چل پڑے تجھے ملنے کے چاؤ میں
دریا بھی ساتھ رکھ لیا کاغذ کی ناؤ میں
تو جو نہیں تو آج پلٹنا نہیں مجھے
دنیا بھی پھینک دیتا ہوں آخر کے داؤ میں
شہ رگ سے ہے قریب محبت کا حادثہ
اللہ کو بھی آنا پڑے گا بچاؤ میں
تم گھٹا سمجھے تھے جس کو وہ کوئی بادل نہ تھا
تھا کلیجے کا لہو وہ آنکھ کا کاجل نہ تھا
فاصلے کیوں ہو گئے اتنی ملاقاتوں کے بعد
دو قدم ہی ساتھ چلنا اتنا تو مشکل نہ تھا
رات دن کی داستاں مجھ سے اے تنہائی نہ پوچھ
دل کبھی بھی اس کی یادوں سے مگر غافل نہ تھا
میں اک عورت جس نے تجھ کو اپنی کوکھ سے جنم دیا
تُو نے مجھ کو پسلی کی تمثیل لیا؟
اور پسلی سے تو نے مجھ کو ٹیڑھی پسلی کر ڈالا
جس کو سیدھا کرتے کرتے صدیاں گزریں
کتنی عورتیں ٹوٹ گئیں ہیں
لیکن تُو پھر بھی ٹیڑھا
وحشت کے کارخانے سے تازہ غزل نکال
اے صبر کے درخت مِرا میٹھا پھل نکال
کاغذ کے پیراہن میں بدن پھول جیسا رکھ
کیچڑ سے اپنی آنکھوں کی چہرہ کنول نکال
میں سیدھا راستہ ہوں تو مڑ جا مِری طرف
گمبھیر مسئلہ ہوں تو سادہ سا حل نکال
اے رشک گل انداماں اے پیکر رعنائی
تتلی تِری دیوانی، بلبل ترا شیدائی 🦋
تُو حسن کی دیوی ہے، یا روپ کی شہزادی
پُنوں تِرے پروانے، سسیاں تِری سودائی
تُو نازِ غزالاں ہے، یا جانِ بہاراں ہے
لیلٰی بھی تِری خواہاں، مجنوں بھی تمنائی
ترے حصولِ عشق میں کیا ملا مجھے
عمر بھر کے روگ سے آشنا کیا مجھے
ہوش و آگہی کا جو فہم ملا مجھے
ناخداؤں کی دنیا میں وہ خدا مل گیا مجھے
ملتے گئے قدم قدم پہ دیوانے مجھے
بس! اک وہ ہی نہ ملا مجھے
ہائیکو/ماہیہ/سر حرفی/تروینی/سہ مصرعی
جب بھی کوئی خوشی کی بات ہوئی
تیرا غم آ کے کھا گیا اس کو
کیسے کہہ دوں کہ تجھ کو بھول گئی
فوقیہ مشتاق
تروینی
عجب مشکل ہے اس کا سامنا کرتا نہیں ہوں میں
وہ مجھ کو دیکھتا رہتا ہے، اور حیران ہوتا ہے
میں بے تصویر ہوں، میری شباہت آئینہ کیا دے
زعیم رشید
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
شاعری کی قدیم فائل میں
ولی دکنی نے نوٹ لکھا تھا
شعر سننا عزیز فیصل سے
عزیز فیصل
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
رسم مت نبھایا کر
مجھ سے گر نہیں ملنا
یاد بھی نہ آیا کر
عاطف سعید
تروینی
دو ہی لوگوں کی جگہ نظم میں ہے، آ جاؤ
آؤ لے چلتے ہیں، افلاک گھما لائیں تمہیں
یاد رکھو گے کہ شاعر سے محبت کی تھی
گلزار
مانا کہ ابھی ربط نہ رشتہ نہ مہر ہے
پھر بھی تمہیں ہم سے ہی محبت تو مگر ہے
چھلکا مِری آنکھوں سے غمِ دیدہ کئی بار
یعنی کہ مِری اب کے اجڑنے کی خبر ہے
برسوں جو لکھوں ختم نہ ہو غم کی کہانی
قسمت میں لکھا اتنا مِرے زیرو زبر ہے
ہر بار رفو کرتی ہوں میں چاک گریباں
قدرت کے کینوس پر روشنی کا کال پڑا
اور
ہمارے حصے کے رنگ
سمندری مچھلیوں میں بانٹ دئیے گئے
نتیجتاً ہم نے فلٹرز ایجاد کیے
اور اپنے چہروں کو مصنوعی روشنی دی
ذیشان راٹھور
یہ کیا صورت ہمارے دیس کی سرکار کر ڈالا
حوالے نفرتوں کے یہ حسیں گلزار کر ڈالا
عجب قانون بنوا کر یہاں بنیادِ مذہب پر
محل آئین کا کیوں آپ نے مسمار کر ڈالا
عدم جمہوریت کی ہر طرف حالات پیدا کر
دیارِ ہند کے ماحول کو بے کار کر ڈالا
کر بھی لوں اگر خواب کی تعبیر کوئی اور
سینے میں اتر جائے گی شمشیر کوئی اور
اب اشک تِرے روک نہیں پائیں گے مجھ کو
اب ڈال مِرے پاؤں میں زنجیر کوئی اور
میں شب سے نہیں دن کی ہلاکت سے ڈرا ہوں
اب میرے لیے بھیجنا تنویر کوئی اور
ایسا بھی نہیں درد نے وحشت نہیں کی ہے
اس غم کی کبھی ہم نے اشاعت نہیں کی ہے
جب وصل ہوا اس سے تو سرشار ہوئے ہیں
اور ہجر کے موسم نے رعایت نہیں کی ہے
جو تُو نے دیا اس میں اضافہ ہی ہوا ہے
اس درد کی دولت میں خیانت نہیں کی ہے
ربط
رات کو کالا کر کے پھر
کچھ جھوٹے تارے دیکھ لیے
تاروں میں گم رہ کر بھی
چاند چمکتا دیکھ لیا
چاند میں بڑھیا رہتی ہے
عیشِ رفتہ نے بہت خون رُلایا ہے مجھے
پھول کی سیج نے کانٹوں پہ سلایا ہے مجھے
دے کے اک شعلۂ گُفتار جگایا ہے مجھے
عہدِ خوابیدہ نے بے درد بنایا ہے مجھے
زرد رُو خار بھی ہے عاشق سلمائے بہار
شوخ کلیوں نے اشاروں میں بتایا ہے مجھے
خوشی اچھی نہیں لگتی ہنسی اچھی نہیں لگتی
تمہارے بعد مجھ کو زندگی اچھی نہیں لگتی
وہ جس دن ساتھ رہتے تھے وہ دن تیوہار لگتا تھا
مگر جب سے وہ بچھڑے عید بھی اچھی نہیں لگتی
ہیں لب خاموش ماتھے پر شکن اب مان بھی جاؤ
حسیں چہرے پہ یہ ناراضگی اچھی نہیں لگتی
یہ جنت ہے؟
یہ جنت ہے؟
مجھے بتلائے گا کوئی، یہ جنت ہے؟
مِرے اجداد کہتے تھے: یہ جنت ہے
وہ جنت جس کی خاطر
اتنی جانوں کو نچھاور کر کے آئے ہیں
مجھے بتلائے گا کوئی: یہ جنت ہے؟
کس کا ہے قصور کہہ رہا ہوں
کیا سچ ہے حضور کہہ رہا ہوں
تم فسق و فجور کہہ رہا ہوں
میں اس کو شعور کہہ رہا ہوں
خاموش کبھی نہیں ہوا میں
چپ چاپ ضرور کہہ رہا ہوں
مختصر نظم
زندگانی نوحہ ہے
ان تمام لمحوں کا
جن میں تم ضروری تھے
اور کہیں نہیں تھے تم
فریحہ نقوی
سفینہ اپنا کہاں ٹھیرے اب خدا معلوم
نہ منزلوں کی خبر ہے نہ راستہ معلوم
میں کس جہان میں گم ہوں کسی کو کیا معلوم
نہیں ہے مجھ کو بھی اپنا اتا پتا معلوم
کسی کو عارضۂ عشق تو نہ ہو لاحق
یہ وہ مرض ہے کہ جس کی نہیں دوا معلوم
پھر سے در آیا کسی کا غم ہماری شام میں
آ ملا ہے ہلکا ہلکا نم ہماری شام میں
نغمۂ سوزِ درو ں چھڑنے لگا وقتِ غروب
درد کا آ کر ملا سرگم ہماری شام میں
سج گئی ہے شام ہوتے ہی نئی بزمِ عزا
ہے کسی کے ہجر کا ماتم ہماری شام میں
دشت سے لوٹ کے جانا بھی نہیں آتا ہے
اور مجھے خاک اُڑانا بھی نہیں آتا ہے
تیرے کیا خواب چُراؤں گا کہ مجھ ایسوں کو
باغ سے پھول چُرانا بھی نہیں آتا ہے
کچھ نہ کچھ چھوڑ کے جاتے ہو ہمیشہ مجھ میں
تم کو تو ٹھیک سے جانا بھی نہیں آتا ہے
تاریکیوں کو آگ لگے اور دِیا جلے
یہ رات بین کرتی رہے اور دیا جلے
اس کی زباں میں اتنا اثر ہے کہ نصف شب
وہ روشنی کی بات کرے اور دیا جلے
تم چاہتے ہو تم سے بچھڑ کے بھی خوش رہوں
یعنی ہوا بھی چلتی رہے اور دیا جلے
تِری آنکھوں کے کاجل پر
تِرے گلبرگ عارض پر
ہوا کے ہونٹ نے الفت بھرا بوسہ دیا ہو گا
تبھی یہ رنگ نکھرا ہے
تِرے چہرے کی رنگت سے
دھنک سی بنتی جاتی ہے
بے سکونی
دوستا! ان دنوں میں بڑی بے سکونی میں ہوں
بے سکونی کا مت پوچھ کیا ہے؟ بلا ہے
بے سکونی کا چہرہ کبھی جاگتی آنکھوں میں دیکھنا
بے سکونی کا چہرہ کبھی ایسے افراد میں دیکھنا
جن کو چپ لگ گئی
پیغام
پیغام ہوا لائی ہے نہ جانے کدھر سے
پتوں پہ ابھر آئی ہے تحریر کدھر سے
جو دیکھی ہے لائی ہے وہ تصویر کدھر سے
اک راہ پہ وہ آیا ہے اک لمبے سفر سے
محمل میں وہ بے خواب ہے عالم کی خبر سے
کیا دیکھیے، کیا شکل ہوئی زیر و زبر سے
کبھی خوشی تو کبھی غم ہے دار فانی میں
کبھی ہے پیری کا دُکھ اور سُکھ جوانی میں
بنائے ہیں تُو نے ارضی خدا ہزاروں یاں
مگر حقیقی خدا تو ہے ہر نشانی میں
سناتا پھرتا ہے فرضی کہانیاں واعظ
وہ چشم پوش ہے اکثر ہی حق بیانی میں
صبح فراق الاماں وصل کی شام الاماں
عجیب ہے بساط عشق عجب نظام الاماں
تھے کبھی جو سرخرو وہ تو ہم نہیں رہے
تم تو ہو چنیں چناں تمہارا نام الاماں
گزر گئی یہ زندگی قدم قدم گھسیٹ کے
موت بھی آ رہی ہے کیا گام بہ گام الاماں
ہم کبھی ملے نہیں
جیسے گلیوں، چوباروں، باغیچوں میں
لوگ ملتے ہیں
حسنِ یاراں کو دل میں سینچتے ہیں
ہم ایسے کبھی ملے نہیں
تم تجسس کے مارو، ہم سے نہ پوچھو
کیسی سرگوشیاں کرتی ہے ہوا سننے دے
حبسِ تنہائی، اداسی کا کہا سننے دے
راستہ چھوڑ غبارِ رہِ وحشت ہٹ جا
آسمانوں کو مسافر کی دعا سننے دے
دل کی دھڑکن ذرا خاموش کوئی بولتا ہے
آمد و رفتِ تنفس یہ صدا سننے دے
چاند جگنو نہ ہوا، جگنو شرارہ نہ ہوا
عشق دنیا سے کوئی اپنا گوارا نہ ہوا
بزم میں ہم نے کئی بار تجھے دیکھا تھا
تیری جانب سے کوئی ہم کو اشارہ نہ ہوا
اس قدر فرقہ پرستی تھی زمانے بھر میں
اس تعصب کی بنا پر وہ ہمارا نہ ہوا
ان آندھیوں کے مقابل قدم اٹھاتے ہوئے
کوئی بھی خوف نہیں ہے دِیا جلاتے ہوئے
مجھے یہ ڈر تھا بچھڑکر وه مر نہ جائے کہیں
سو خود کو چھوڑ دیا تھا وہیں پہ آتے ہوئے
وگرنہ وه تو کبھی دل سے جا نہیں پاتا
دعائے ہجر پڑھی تھی اسے بُھلاتے ہوئے
یہ جو عشق مسلک کے لوگ ہیں انہیں رمز سارے سکھا پیا
یہ جنونِ عشق کی داستاں انہیں حرف حرف سنا پیا
مِرے چارہ گر میں ہوں در بدر، میں تو تھک گئی ہے عجب سفر
مِری بے نشاں سی ہیں منزلیں مجھے راستہ بھی دکھا پیا
نہ حدود میں نہ قیود میں، مِرا دل تِرے ہی وجود میں
یہ سجود کا حسیں پیرہن میری روح پر تو سجا پیا
دستر خوان پہ ٹھنڈے سورج تھے اور بنجر تھے
یار، محمد بخشا! مٹھی کھیر میں کنکر تھے
بچپن تھا اور جیب میں کَیری اور غلیلیں تھیں
پیڑوں سے یاری تھی، سارے پنچھی ازبر تھے
کنچوں کے رنگین دلاسے، انگوری سپنے
باغ میں کچے امرودوں کی تاک میں پتھر تھے
منادی ہے بموں کے طبلِ دہشت پر منادی ہے
سزائے موت، سارے شہر کو اس نے سنا دی ہے
بگولا جو اٹھا ہے پھیل کر طوفاں نہ بن جائے
کسی نے خار و خس کو زورِ آتش سے ہوا دی ہے
اسے ہم عقدِ مستقبل کا ہنگامہ سمجھتے ہیں
یہ کوئی شورِ ماتم ہے نہ کوئی جشنِ شادی ہے
ایک تھی عورت
یہ جی چاہتا ہے کہ تم ایک ننھی سی لڑکی ہو
اور ہم تمہیں گود میں لے کے اپنی بٹھا لیں
یوں ہی چیخو، چلاؤ، ہنس دو، یوں ہی ہاتھ اٹھاؤ
ہوا میں ہلاؤ، ہلا کر گرا دو
کبھی ایسے جیسے کوئی بات کہنے لگی ہو
مسلط ہوئے ہیں عدوئے وطن ستم ہے رواں
مٹے ہیں گل و لالہ و یاسمن مسلسل زیاں
کوئی چھاؤں والا شجر اب نہیں تپی ہے زمیں
ہے ماحول سنگیں فضا آتشیں دھواں ہی دھواں
بچا ہے نہ پتہ نہ پودا کوئی نہ سبزہ کوئی
نہیں باغ میں آج بُوٹا کوئی خزاں ہی خزاں
خود فریبی
میرے بستر پر
نیند رکھی ہے
بس ذرا بستر پر جاؤں
تو سو جاؤں گی
یہی سوچ کر روز
سخن کے نام پہ جاری جگالیاں توبہ
اور اس پہ چاروں طرف سے یہ تالیاں توبہ
ہزار کروٹیں بدلے ہے ایک اک پل میں
مزاجِ یار کی بے اعتدالیاں توبہ
اِدھر لبوں پہ مچلتی یہ وصل کی خواہش
اُدھر بکھرتی وہ گالوں پہ لالیاں توبہ
شاعر اعظم (نمکین کلام)
خبط مجھ کو شاعری کا جب ہوا
دس منٹ میں ساٹھ غزلیں کہہ گیا
سب سے رو رو کر کہا سن لو غزل
تاکہ میں ہو جاؤں پھر سے نارمل
رحم اپنوں کو نہ آیا جب ذرا
تو پریشاں ہو کے ہوٹل میں گیا
ہر زخم دل سے انجمن آرائی مانگ لو
پھر شہر پر ہجوم سے تنہائی مانگ لو
موسم کا ظلم سہتے ہیں کس خامشی کے ساتھ
تم پتھروں سے طرز شکیبائی مانگ لو
حسن تعلقات کی جو یادگار تھے
ماضی سے ایسے لمحوں کی رعنائی مانگ لو
بہار دل میں ہے پِھر خوفِ خزاں کیسے ہو
یہ کیفیات کا لفظوں میں بیاں کیسے ہو
جو لطفِ یار میسر جہانِ خلوت میں
وہ لطفِ یار کا اظہار یہاں کیسے ہو
جس نے گُدڑی میں صبر و شُکر کے موتی رکھے
شہرِ خود غرض میں محتاجِ زماں کیسے ہو
ان سے بھی تھوڑا رابطہ رکھو
زندگانی سے واسطہ رکھو
درد کو درد سے جدا رکھو
دل میں دیوار اک اٹھا رکھو
نظمِ کہنہ بدلنا ہی ہوگا
نام ہر چیز کا نیا رکھو
آگے مت سوچو
سنتے ہو اک بار وہاں پھر ہو آؤ
ایک بار پھر اس کی چوکھٹ پر جاؤ
دروازے پر دھیرے دھیرے دستک دو
جب وہ سامنے آئے تو پَرنام کرو
میں کچھ بھول گیا ہوں شاید، اس سے کہو
جو ماہر تھے کسی فن کے وہی بے کار بیٹھے ہیں
جو تھے بے کار ہر فن میں بنے فنکار بیٹھے ہیں
نہیں آتا جہاں میں اب عصا لے کر کوئی موسیٰ
ہزاروں اب تو یاں فرعون کے اوتار بیٹھے ہیں
نہ ہی اب ٹھنڈی ہوتی ہے نہ ہی گلزار بنتی ہے
زمانے بھر کے کافر دہکا کے انگار بیٹھے ہیں
محتسب آیا بزم میں، ساقی لے آ شراب کو
یہ نہ سمجھ کہ شب پرک دیکھے گی آفتاب کو
آنکھوں کا میری ان دنوں، یارو ہے طرفہ ماجرا
میں تو روؤں ہوں ان کے تئیں ہنستی ہیں یہ سحاب کو
دم ہی رہا یہ پیرہن، تن تو ہو اشک بہہ گیا
جن نے نہ دیکھا ہو مجھے، دیکھے وہ جا حباب کو
آؤ چلیں اس کھنڈر میں
جو عرصہ پہلے ٹوٹ گیا
کچھ یادیں ان میں باقی ہیں
فریادیں بھی کچھ باقی ہیں
شہنائی کا ہے کوئی مدھم سر
ان دیواروں میں گونج رہا
مجھے تمہارے شانے درکار ہیں
میں کارگہ حیات کی
اداس شاموں میں
بے بسی کی رتوں میں
انہی کے سہارے لے لے کر چل پھر رہا تھا
میں نے تمہارے شانوں پر اس لیے ہاتھ رکھے ہیں
تمام رنج و الم کو وہ پیارا لگ گیا ہے
جسے بھی عشق ہوا ہے بے چارا لگ گیا ہے
زیاں کے ذیل میں کچھ سانس رہ گئے ہیں حضور
جو ان پہ سود کمایا تھا، سارا لگ گیا ہے
یہ کس کے دستِ گزارش بھنور کو اچھے لگے
یہ کیسے ناؤ سے آ کر کنارا لگ گیا ہے
دیکھ کر مجھ کو مِری شوخ بڑی ہنستی ہے
مجھ سے اک شعر کی دوری پہ کھڑی ہنستی ہے
خود کو آواز جو دیتا ہوں تِرے لہجے میں
میرے کمرے میں ہر اک چیز پڑی ہنستی ہے
تیرا مہجور تو بس تیری خوشی میں خوش ہے
سرِ مژگان سو اشکوں کی لڑی ہنستی ہے
دان ہی دان قدر دان سمجھ بیٹھے ہیں
میرے رونے کو وہ مسکان سمجھ بیٹھے ہیں
میرا ہونا بھی گوارا نہیں کرتے اب تو
میرے ہونے کو وہ نقصان سمجھ بیٹھے ہیں
میں نے لکھا تھا بچھڑ کر میں جیوں گا کیسے
میرے سونے کو وہ اعلان سمجھ بیٹھے ہیں
دریا سمندر جھیل اور بادل بھی میں بنی
ٹکرائی موج سے تو پھر ساحل بھی میں بنی
مریم و عائشہ،۔ خدیجہ اور فاطمہ
نامی گرامی ناموں کی حامل بھی میں بنی
شفقت و ہمت عظمت و فکرِ عمل کی میں
چُھو جائے آسماں کو جو مشکل بھی میں بنی
بادل چھٹے تو رات کا ہر زخم وا ہوا
آنسو رکے تو آنکھ میں محشر بپا ہوا
سُوکھی زمیں پہ بکھری ہوئی چند پتیاں
کچھ تو بتا نگارِ چمن! تجھ کو کیا ہوا؟
ایسے بڑھے کہ منزلیں رستے میں بچھ گئیں
ایسے گئے، کہ پھر نہ کبھی لوٹنا ہوا
پتہ کیسے چلے دنیا کو قصر دل کے جلنے کا
دھوئیں کو راستہ ملتا نہیں باہر نکلنے کا
بتا پھولوں کی مسند سے اتر کے تجھ پہ کیا گزری
مِرا کیا میں تو عادی ہو گیا کانٹوں پہ چلنے کا
مِرے گھر سے زیادہ دور صحرا بھی نہیں لیکن
اداسی نام ہی لیتی نہیں باہر نکلنے کا
میں تمہارے لیے لے کے آیا ہوں
دفتر سے چرایا ہوا نصف دن
دوستوں سے بچائی ہوئی ایک شام
بچوں سے ٹھگے ہوئے وعدے
بیوی کے حصے سے کچھ نرم گرم لمس
کچھ سوتے جاگتے بوسے
اشکوں میں ڈھلا پر یہ زباں تک نہیں آیا
ورنہ تو یہ طوفان کہاں تک نہیں آیا
دنیا نے بہت کچھ ہے لکھا اہلِ جنوں پر
لیکن کوئی الزام یہاں تک نہیں آیا
جب تیراعدو تیرے نشا نے پہ کھڑا تھا
اچھا ہے تِرا تیر کماں تک نہیں آیا
خیالوں کا نگر، اُجڑے ہوئے منظر سے آگے ہے
وہ نغمہ زار اس آواز کے بنجر سے آگے ہے
نفس اک موجِ کم آواز ہے، لیکن روانی میں
لہو کی ٹہنیوں کو کاٹتی حر حر سے آگے ہے
کبھی بے گانگی کا فاصلہ طے ہو نہیں پایا
ہمارے ساتھ کا گھر بھی ہمارے گھر سے آگے ہے
ایک صندوق میں خط اس کے پڑے ہوتے تھے
بشر آزاد تھا، جب فون بندھے ہوتے تھے
اب تو ہر گاؤں میں بجلی بھی ہے یو پی ایس بھی
آگے سب لوگ ہی پیپل کے تلے ہوتے تھے
باپ آتا ہے،۔ جگہ ڈھونڈتا ہے بیٹھنے کو
پہلے آتا تھا پسر جھٹ سے کھڑے ہوتے تھے
گونگے بہرے ہیں یہ فرمان کہاں سنتے ہیں
اے خدا! سن لے کہ انسان کہاں سنتے ہیں
اِس زمانے میں محبت کی زباں والوں کو
آنکھیں سنتی ہیں، بھلا کان کہاں سنتے ہیں
لاکھ چیخا میں کہ کچا ہے مِرا گھر لیکن
موج میں آئے ہوں طوفان، کہاں سنتے ہیں
چائلڈ ابیوز
کوئی نظم ایسی لکھوں میں
کہ جس میں علامت کا پردہ نہ ہو
گالیوں کی اجازت ہو
ننگی حقیقت میں ڈوبی ہوئی گالیاں
جو تمہیں دے سکوں
پھول کے ساتھ لگے خار سے اُکتائے ہوئے
ہم تِری بزم میں اغیار سے اکتائے ہوئے
ایک تو یہ ہمیں مرضی سے نہ چلنے دے گی
ہم ہیں اجداد کی دستار سے اکتائے ہوئے
جی مچلتا ہے وہاں دیکھ کے ہر نادر شے
ہم تہی جیب ہیں بازار سے اکتائے ہوئے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
نبیﷺ کی آنکھ میں رسوا نہیں میں
جہاں والو! گیا گزرا نہیں میں
مِرے چاروں طرف ہے انؐ کی رحمت
بہ فیضِ مصطفٰیﷺ تنہا نہیں میں
میں پیتا ہوں مئے عشقِ محمدﷺ
بہت سیراب ہوں، پیاسا نہیں میں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
تصور سے بھی آگے تک در و دیوار کُھل جائیں
میری آنکھوں پہ بھی یا رب تیرے اسرار کھل جائیں
میں تیری رحمتوں کے ہاتھ خود کو بیچنے لگوں
مِری تنہائیوں میں عشق کے بازار کھل جائیں
جوارِ عرشِ اعظم اس قدر مجھ کو عطا کردے
مِرے اندر کے غاروں پر تِرے انوار کھل جائیں
تُو مجھے کس کے بنانے کو مٹا بیٹھا ہے
میں کوئی غم تو نہیں تھا جسے کھا بیٹھا ہے
بات کچھ خاک نہیں تھی جو اڑائی تُو نے
تیر کچھ عیب نہیں تھا جو لگا بیٹھا ہے
میل کچھ کھیل نہیں تھا جو بگاڑا تُو نے
ربط کچھ رسم نہیں تھا جو گھٹا بیٹھا ہے
نہ میں دل کو اب ہر مکاں بیچتا ہوں
کوئی خوبرُو لے، تو ہاں بیچتا ہوں
وہ مے جس کو سب بیچتے ہیں چھپا کر
میں اس مے کو یارو! عیاں بیچتا ہوں
یہ دل جس کو کہتے ہیں عرشِ الٰہی
سو اس دل کو یارو! میں یاں بیچتا ہوں
وہ جانتی ہے بدن کی بولی
مخاطبیں کے تمام خلیے
اسے دکھاتے ہیں اپنے اپنے متونِ اصلی
وہ چُپ کا ہر بھید جانتی ہے
وہ آنکھ کی پُتلیوں کے اندر لکھی کہانی میں
اپنا کردار، اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے
پھینک یوں پتھر کہ سطح آب بھی بوجھل نہ ہو
نقش بھی بن جائے اور دریا میں بھی ہلچل نہ ہو
کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے
آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو
ہے سفر درپیش تو پرچھائیں کی انگلی پکڑ
راہ میں تنہائی کے احساس سے پاگل نہ ہو
کمروں میں چھپنے کے دن ہیں اور نہ برہنہ راتیں ہیں
اب آپس میں کرنے والی اور بہت سی باتیں ہیں
لذت اور یکتائی کا اک جھونکا آیا بیت گیا
پھر سے اپنے اپنے دکھ ہیں اپنی اپنی ذاتیں ہیں
قربت کی لذت جیسے بارش میں پتھر رکھا ہو
اندر صحرا جیسا موسم اور باہر برساتیں ہیں
نہ تربیت ہے بچوں کی، نہ روٹی ہے، نہ پانی ہے
ملازم بیوی ہو جس گھر میں اس گھر کی کہانی ہے
زمانے بھر میں گاڑے ہیں جو پنجے بے حجابی نے
بلا اتری ہے گھر گھر میں، وہ آفتِ آ سمانی ہے
نظام شمسی گردش میں ہے مُلا کو خبر کیا ہے
ستارے ہیں سفر سائنس،۔ مُلا آستانی ہے
محبت آخری رشتہ ہے
محبت آخری جذبہ
جو ہم میں اور تم میں ہے
کسی بھی قید سے ہٹ کر
حدودِ وقت سے آگے
نہ اس کو نام سے مطلب
یہ مِرے عشق کا دائرہ صاحبا
ہے تِرے گرد ہی گھومتا صاحبا
تیری آواز سے یوں ہری ہو گئی
جیسے مجھ میں ہو سورج اُگا، صاحبا
اپنا ہونا مجھے راس آیا نہیں
پھر مجھے تیرا ہونا پڑا، صاحبا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
زندگی کا مزہ اس کے جینے میں ہے
مصطفٰیؐ کی وفا جس کے سینےمیں ہے
جس سے شمس و قمر کو ملے روشنی
ایسے ذروں کی مٹی مدینے میں ہے
ایڑیوں کے رگڑنے کی تاثیر سے
اک عجب لطف زم زم کے پینے میں ہے
پنجرہ خالی کرنا ہو گا
سانپ اور چڑیا
دونوں قید ہیں اک پنجرے میں
اور باہر چیل کا پہرہ ہے
کس نے کہا تھا
جیون خواب سنہرا ہے
چھلکا ہے نہ چھلکے گا یہ پیمانہ ہمارا
آباد رہے گا یونہی مے خانہ ہمارا
کس ناز سے کہتے ہیں یہ محفل میں سبھی سے
جائے تو کہاں جائے گا دیوانہ ہمارا
کس کس سے چھپاؤ گے بتاؤ تو بھلا یہ
مستی میں ہواؤں کے ہے افسانہ ہمارا
اس کے مقابلے میں ذرا کم، بدل گئے
بدلا ہے پہلے یار، تو پھر ہم ،بدل گئے
پنگھٹ نہ جُھولا ہے کوئی، ٹپے نہ بانسری
شہروں کے ساتھ گاؤں بھی پیہم بدل گئے
اپنے ہی روتے عکس پہ جی بھر کے میں ہنسا
یوں قہقہوں میں آنکھ کے سب نم بدل گئے
ہجر کا رزق ہوئے جاتے ہیں زینت بھی، زیبائی بھی
خاک میں عشق ملا دیتا ہے صورت بھی، رعنائی بھی
چوٹ جگر پر کھا کے ہی اس زخم کا کچھ اندازہ ہو
پھر تجھ کو معلوم پڑے گی شدّت بھی، گہرائی بھی
حرف گری کے سر پر خواب فروشی کا الزام تو ہے
نام کے ساتھ ملا کرتی ہے شہرت بھی، رسوائی بھی
آغاز سے انجام کی دیتا تھا خبر میں
اب لوگ سمجھتے ہیں مِری بات مگر میں
اک بار ہی آواز لگاتا ہوں یقیناً
پھر گونج سے لگتا ہے کہیں بارِ دِگر میں
اب بیٹھے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ تسلسل
کچھ رنگ عناصر کے بدلنے تھے اگر میں
لپٹ کے سوچ سے نیندیں حرام کرتی ہے
تمام شب تیری حسرت کلام کرتی ہے
ہمی وہ علم کے روشن چراغ ہیں جن کو
ہوا بجھاتی نہیں ہے سلام کرتی ہے
کسی بھی طور سکھاتی نہیں ہے آزادی
مِرے حضور! محبت غلام کرتی ہے
بکھرا پڑا ہوا کہیں رسوائیوں میں تھا
لمحہ جو ایک وقت کی رعنائیوں میں تھا
اک مرمریں سے ہاتھ نے کھولے مِرے بٹن
پھر میں کسی کے لمس کی گہرائیوں میں تھا
وہ تھا گئے دنوں کی اذیت میں مبتلا
میں بھی کسی قیاس کی پرچھائیوں میں تھا
بچ بچ کے تیری راہ سے چلنا تو تھا مجھے
تُو جو بدل گیا ہے بدلنا تو تھا مجھے
سورج پرست چھوڑ گئے ہیں غروب پر
نصف النہار شمس تھا ڈھلنا تو تھا مجھے
دنیا پڑی ہوئی تھی نگاہوں کے سامنے
دنیا کی گمرہی سے نکلنا تو تھا مجھے
بھیگا موسم
اس نے کہا تھا چھوٹی سی فرمائش ہے
میں نے کہا تھا بھولی بھالی خواہش ہے
اس نے کہا تھا روح میں خارش ہوتی ہے
میں نے کہا تھا جسموں کی سازش ہوتی ہے
اس نے کہا تھا بادل کالے ہوتے ہیں
گھروں کے صحن میں قبریں بنانا پڑ گئی ہیں
ہمارے بچوں کو لاشیں اٹھانا پڑ گئی ہیں
معاف کرنا وطن کی زمین، رب راکھا
ہمیں درندوں سے نسلیں بچانا پڑ گئی ہیں
چراغ بُجھنے لگے تھے سو احتیاطاً اب
تمام شہر میں آنکھیں جلانا پڑ گئی ہیں
جب بھی اُمید کو کھیتوں میں اُگانے نکلے
ہم. نے دیکھا اسی مٹی سے خزانے نکلے
شہر کا شہر ہی سڑ کوں پہ اُمنڈ آیا تھا
جب بھی پُر سوز عبارت کو سُنانے نکلے
اپنی خواہش کا بھی انداز عجب ہے یارو
ہم، تو صحراؤں میں اک شہر بسانے نکلے
جو لوگ راتوں کو جاگتے تھے
ستارے جتنے بھی آسماں پر
مِری تمنا کے ضوفشاں تھے
زمیں کے اندر اتر گئے ہیں
جو لوگ راتوں کو جاگتے تھے وہ مر گئے ہیں
وہ پھول وہ تتلیاں کہ جن سے
تشنہ لبوں کے خالی کوزے اشکوں سے بھر جاتے ہیں
پیاس کی شدت بڑھ جاتی ہے اور پیاسے مر جاتے ہیں
وقت مقام کی پیشانی پر ایسی خراشیں کھینچتا ہے
شہر سے جانے والے شہر میں لوٹیں تو ڈر جاتے ہیں
ان آنکھوں کا اک بوسہ لفظوں کو خوشبو دیتا ہے
ان ہونٹوں کے رنگ بکھر کر منظر منظر جاتے ہیں
اے غمگسار! مرے دوست، آزماتے نہیں
جو جا رہے ہوں مِری جاں انہیں بلاتے نہیں
یہ درد و غم کے ہیں قصے تمہیں رلائیں گے
ہو مختصر بھی کہانی مگر سناتے نہیں
تمہیں ملیں گی دریچے میں منتظر شمعیں
کہیں بھی جائیں ہم آنکھوں کو لے کے جاتے نہیں
کچھ بھی دنیا میں کہاں دوستو، حسرت سے ملا
عیش تو عیش مجھے رنج بھی محنت سے ملا
آگہی،۔ تجربے،۔ خوش فہمیاں،۔ امید نئی
کیا سے کیا کچھ نہ مجھے ترکِ سکونت سے ملا
کتنا مکروہ لگا قیمتی ملبوس اس کا
ایک نادار سے جو شخص کراہت سے ملا
تنہائی
تمہیں کیا معلوم کہ میرے کمرے کو چاروں کونوں سے
کس طرح تنہائی کی دیمک چاٹ چکی ہے
رات کے بارہ بجے بستر سے رضائی اٹھاتا ہوں
تو اداسی کے ذرے ایسے اچھلتے ہیں
جیسے صبح کی کِرنیں ہوں
نظر میں رنگ سمائے ہوئے اسی کے ہیں
یہ سارے پھول اگائے ہوئے اسی کے ہیں
اسی کے لطف سے بستی نہال ہے ساری
تمام پیڑ لگائے ہوئے اسی کے ہیں
اسی کے حسن کی پرچھائیاں ہیں پتوں پر
زمیں نے بوجھ اٹھائے ہوئے اسی کے ہیں
وہ شخص جس کی حفاظتوں میں ہمارے بازو کٹے ہوئے تھے
پلٹ کے دیکھا تو اس کے ہاتھوں کو ہاتھ پھر بھی لگے ہوئے تھے
تمہارے پاؤں کا لمس پا کر ہی ان میں بڑھوتری ہوئی ہے
تمہارے آنے سے پہلے پودوں کے قد وہیں پر رکے ہوئے تھے
ہمیں تو پردیس میں یہ خواہش تھی سب کو روئیں گے نام لے کر
پلٹ کے آئے تو اپنی قبروں کے سارے کتبے مٹے ہوئے تھے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
"عکسِ روئے مصطفیٰﷺ سے ایسی زیبائی ملی"
کِھل اُٹھا رنگِ چمن، پُھولوں کو رعنائی ملی
سبز گنبد کے مناظر دیکھتا رہتا ہوں میں
عشق میں چشمِ تصور کو وہ گیرائی ملی
جس طرف اُٹھیں نگاہیں محفلِ کونین میں
رحمۃ اللعٰلمینﷺ کی جلوہ فرمائی ملی
نہیں بھولی بھٹک کر بھی محبت کے ٹھکانوں کو
وہ اپنے عشق کی نگری، وہ بچپن کے زمانوں کو
سدا فرقت کے صحرا نے مجھے بخشی ہے ویرانی
بناتی رہ گئی میں ریت پر کیوں آشیانوں کو
صدائے درد نے جو ساز چھیڑا تھا فضاؤں میں
اسی نے حسن بخشا ہے مِرے غمگیں فسانوں کو
بنانے والے کو بننے والے کا غم پتا تھا تو کیوں بنایا
یہ بن کے اتنے ستم سہے گا وہ جانتا تھا تو کیوں بنایا
میں پوچھتا ہوں کہ کیا ضرورت تھی دین و دنیا کے فلسفے کی
میں سوچتا ہوں کہ سب کو جاں سے گزارنا تھا تو کیوں بنایا
ہزاروں رنگوں کی خواہشوں کے کروڑوں آنکھوں کو خواب دے کر
حقیقتوں کی اذیتوں سے گزارنا تھا تو کیوں بنایا
نظم نامہ
نظم لکھتے ہوئے سوچنا چاہئے
نظم ٹوٹے گی تو شاعروں کے قلم پر
کسی چیخ کا ایک دھبہ لگے گا
کوئی آگ جنگل جلائے بنا ہی بجھے گی
کہیں آب و گل کی کہانی رکے گی
نہ عشق میں نہ ریاضت میں دھاندلی ہوئی ہے
تمہاری اپنی ہی نیّت میں دھاندلی ہوئی ہے
گناہگار تو دوزخ میں بھی کہیں گے یہی؛
حسابِ روزِ قیامت میں دھاندلی ہوئی ہے
ہماری آہوں کی گنتی دوبارہ کرواؤ
ہمارے ساتھ محبت میں دھاندلی ہوئی ہے
آبائی گھر
آبائی گھر ایک سے ہوتے ہیں
ڈیوڑھیوں، دالانوں، برآمدوں، کمروں
اور رسوئیوں میں بٹے ہوئے
لیکن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے
آبائی گھروں میں
کسی بت کے شکم سے گر کوئی آذر نکل آئے
خرد کا بند ٹوٹے،۔ اور اک پتھر نکل آئے
تقاضے جب بدن کے روح میں ڈھل کر نکل آئے
قبا کے بند ٹوٹے،۔ اور حسیں بستر نکل آئے
زمانہ نا شناسی کا،۔ مروت بے خیالی کی
نہ جانے کس گلی کس موڑ پر خنجر نکل آئے
آئینے رُوپ چُرا لیں گے ادھر مت دیکھو
تم کو باتوں میں پھنسا لیں گے ادھر مت دیکھو
چین لُٹ جائے گا گر تم نے ادھر دیکھ لیا
لوگ خوابوں میں بسا لیں گے ادھر مت دیکھو
ایک انگارہ ہو تم پُھول کے پیراہن میں
انگلیاں لوگ جلا لیں گے ادھر مت دیکھو
تُو مقتدر ہے سو تیری ہوا بنی ہوئی ہے
یہ تیرے شہر کی بے حس فضا بنی ہوئی ہے
خبر نہیں ہے کہ وجہِ مخاصمت کیا ہے؟؟
کہ اس کی مجھ سے تو نامِ خدا بنی ہوئی ہے
ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں خدا کی قسم
بس اک انا ہے سو اپنی ردا بنی ہوئی ہے
دھوپ سے سایۂ دیوار تک آتے آتے
مر گئے ہم تِرے معیار تک آتے آتے
بیت جاتی ہیں کئی وصل کی گھڑیاں اس میں
آپ سے، تم سے، سنو یار! تک آتے آتے
ہے تِرے غم کی حرارت کا اثر اشکوں پر
سُوکھ جاتے ہیں یہ رُخسار تک آتے آتے
جو دل کی تہہ سے نکلا ہے اسے دربان چھوڑے
کوئی اس آنکھ سے کہہ دے مِرا مہمان چھوڑے
ابھی مرنے میں دن باقی ہیں سو جی چاہتا ہے
بھلے تاوان لے لے، پر اداسی جان چھوڑے
مجھے کیا آم کے باغوں کی بابت پوچھتے ہو
مجھے مدت ہوئی ہے دوستو! ملتان چھوڑے
پیار کی بات تھی قابلِ غور تھی
پر میں دل فلسفی سے بہت بور تھی
جا لیا ضبط کی سرحدیں پھاند کر
خواب کی کھڑکیاں نیند کی ڈور تھی
منہ چِڑاتی تھی رخسار پر کاٹ کر
شاعری کی پری ایسی شہ زور تھی
جسم کی ناؤ دیمک خوردہ
روح اک ہے بے قابو پتوار
سوچوں کی موجیں پایاب
چاروں اور فنا منجدھار
ہار چکی ہے ہر تدبیر
جیت گئی آخر تقدیر
تمہاری موجودگی میں ہم
کسی دوسرے ماہتاب کی کھوج میں
سرگرداں سبھی ماہرِ فلکیات کو
عمر قید سنانے کا
عالمی آرڈیننس پاس کرتے ہیں
تمہارے چہرے پہ پھیلے رنگ
تیری عنایتوں کی زبانی زمین پر
بکھری پڑی ہے کتنی کہانی زمین پر
جگنو کی خواہشات کی تکمیل کے لیے
خوشبو بکھیرے رات کی رانی زمین پر
اے آسمان! دل میں چھپا کر تِری طلب
ہم نے گزار دی ہے جوانی زمین پر
دل میں جب بھی کبھی دنیا سے ملال آتا ہے
کتنے ہی زہرہ جبینوں کا خیال آتا ہے
شمع جلتی ہے تو پروانوں کا آتا ہے خیال
اور بجھتی ہے تو بجھنے پہ ملال آتا ہے
نوک ہر خار نظر آتی ہے کیوں تشنۂ خوں
دشت پر خار میں کیا کوئی غزال آتا ہے
سفر چاہتوں کا شروع کر رکھا ہے
کھلا دل کا اس کے لیے دَر رکھا ہے
در و بام پے ہے جو پھولوں کی بارش
اسی کے لیے گھر سجا کر رکھا ہے
لبوں پہ تبسم ہے چہرے پہ لالی
نگاہوں میں رِم جھم کا منظر رکھا ہے
محبت بھیک میں ملتی
تو اس کو مانگ لیتے ہم
محبت ساز گر ہوتی
تواس کو گنگناتے ہم
محبت سوز گر ہوتی
تو دل سے ہم لگا لیتے
یوں مسافت اڑان سے نکلے
تیر جیسے کمان سے نکلے
کوئی پوچھے کہ زندگی کیا ہے
نام تیرا زبان سے نکلے
اس نے تذلیل کرکے بھیجا ہے
ہم سمجھتے ہیں شان سے نکلے