Saturday 26 March 2022

آؤ چلیں اس کھنڈر میں جو عرصہ پہلے ٹوٹ گیا

 آؤ چلیں اس کھنڈر میں


جو عرصہ پہلے ٹوٹ گیا

کچھ یادیں ان میں باقی ہیں

فریادیں بھی کچھ باقی ہیں

شہنائی کا ہے کوئی مدھم سر

ان دیواروں میں گونج رہا

آؤ چلیں اس کھنڈر میں

جو عرصہ پہلے ٹوٹ گیا

کچھ سائے ہمارے بچپن کے

کچھ یاد ہمارے لوگوں کی

اس کھنڈر سے وابستہ ہیں

تھی نقش بہت سی تصویریں

اس کھنڈر کی دیواروں پر

تم جانتے ہو وہ کس کی تھیں

کچھ بچوں کی کچھ بوڑھوں کی

کچھ میرے اپنے بچپن کی

آؤ چلیں اس کھنڈر میں

جو عرصہ پہلے ٹوٹ گیا

اور ساتھ بہت کچھ لوٹ گیا

وہ دیکھ رہے ہو بنجر تل

اس کھنڈر کا وہ حصہ تھا

تب صحن اسے ہم کہتے تھے

سب مل کے اس میں روتے تھے

شام کی اکثر چائے ہم

اس جا پر بیٹھ کے پیتے تھے

آؤ چلیں اس حصے میں

جہاں بیٹھ کے ہم سب پڑھتے تھے

شور مچایا کرتے تھے

اور سب کو ہنسایا کرتے تھے

کبھی لڑتے تھے کبھی روتے تھے

یہ دیکھو یہ جو مٹی ہے

ہم اس میں کھیلا کرتے تھے

اور گھنٹوں کھیلا کرتے تھے

وہ دیکھو وہ ٹوٹی ڈیوڑھی

میرے گھر کی چوکھٹ ہے

ہر سال نیا سا رنگ کوئی

ہم لوگ چڑھاتے تھے اس پر

جانتے ہو یہ کھنڈر کبھی

آباد بھی تھا شاداب بھی تھا

ہم لوگ اسی میں رہتے تھے

یہ گھر تھا ہمارا پیارا سا

اور پیارے پیارے لوگ بہت سے

ساتھ ہمارے رہتے تھے

ہم جشن منایا کرتے تھے

ان چاہنے والے لوگوں کے

لہجے کی لہک آنکھوں کی چمک

قدموں کی دھمک

اس گھر کی فضا میں گونج رہی

تم غور کرو آہستہ چلو

یہ کھنڈر نہیں ہے گھر ہے مرا

اس گردش دوراں نے جس کو

یوں لوٹ لیا برباد کیا

میں لوٹ کے اب جو آئی ہوں

اسباب بہت سے لائی ہوں

پر سننے والا کوئی نہیں

نایاب ہوئے وہ لوگ سبھی

وہ آنکھیں تھک کے مند بھی گئی

جو رات کو جاگا کرتی تھیں

اب یہ تو بس اک کھنڈر ہے

آؤ چلیں اس کھنڈر میں


اسریٰ رضوی

No comments:

Post a Comment