مجھے تمہارے شانے درکار ہیں
میں کارگہ حیات کی
اداس شاموں میں
بے بسی کی رتوں میں
انہی کے سہارے لے لے کر چل پھر رہا تھا
میں نے تمہارے شانوں پر اس لیے ہاتھ رکھے ہیں
کہ کہیں تم خمار آگیں آئینوں میں
اپنے عارض و رخسار کی دلکشیوں میں
ڈوب کر لڑکھڑا نہ جاؤ
تمہارے ہونٹ، خمار آلود شخص کے لیے
دنیا کے تمام نشوں سے زیادہ حیثیت رکھتے ہیں
کسی بھی اچھے ذوق کی لطافت کی طرح
پر شکوہ پہاڑوں کے سبزہ زاروں اور
خود رو حسین پھولوں کی طرح
تم بے حد خوبصورت ہو
مجھے تمہاری مسکراہٹ درکار ہے
افقِ انتظار پر دبیز بادلوں کے تاریک سناٹے میں
اجالا کرنے کے لیے
عید کے چاند کا طلوع
سطحی مسکراہٹوں پر لانے کے لیے
میری خاموشیوں کو تم سے ہمکلام ہونے کے لیے
تم کبھی نہیں مر سکتی
اس نظر فریب کائنات میں
تم بھی اک سراب بن کر زندہ رہو گی
تمہاری ایک ٹھوکر سے
تمام اعتبار کے آبگینے توڑے جا سکتے ہیں
علی اختر
No comments:
Post a Comment