Saturday 26 March 2022

تمام رنج و الم کو وہ پیارا لگ گیا ہے

 تمام رنج و الم کو وہ پیارا لگ گیا ہے 

جسے بھی عشق ہوا ہے بے چارا لگ گیا ہے

زیاں کے ذیل میں کچھ سانس رہ گئے ہیں حضور

جو ان پہ سود کمایا تھا، سارا لگ گیا ہے

یہ کس کے دستِ گزارش بھنور کو اچھے لگے

یہ کیسے ناؤ سے آ کر کنارا لگ گیا ہے

یہ پھول ہے یا تِرے پیرہن کی پرچھائی

یا میری آنکھ کو رنگِ نظارا لگ گیا ہے

ہمارے ہجر نے رنگت نکھار دی ہے مزید

تمہارے حسن کو جیسے خسارا لگ گیا ہے 

کسی کی یاد میں تارے شمار کرتے ہوئے 

مِرے حساب کے پرچے پہ تارا لگ گیا ہے 


آزاد حسین آزاد

No comments:

Post a Comment