سفینہ اپنا کہاں ٹھیرے اب خدا معلوم
نہ منزلوں کی خبر ہے نہ راستہ معلوم
میں کس جہان میں گم ہوں کسی کو کیا معلوم
نہیں ہے مجھ کو بھی اپنا اتا پتا معلوم
کسی کو عارضۂ عشق تو نہ ہو لاحق
یہ وہ مرض ہے کہ جس کی نہیں دوا معلوم
نہ جانے عشق میں یہ کیسا موڑ آیا ہے
نہیں ہے اب ہمیں اپنا بھلا برا معلوم
سمجھ کے سادہ دل اس کو دل اس پہ وار دیا
پتا چلا کہ ستم گر ہے جب کیا معلوم
بس اتنا یاد ہے اِک بت سے دل لگایا تھا
ملی ہے سخت سزا پر نہیں خطا معلوم
میں ان کے در پہ رہوں گا ابد تلک ناصر
بتوں کو ہو کہ نہ ہو میرا مدعا معلوم
فیض الحسن ناصر
No comments:
Post a Comment