Sunday 27 March 2022

سفینہ اپنا کہاں ٹھیرے اب خدا معلوم

 سفینہ اپنا کہاں ٹھیرے اب خدا معلوم 

نہ منزلوں کی خبر ہے نہ راستہ معلوم

میں کس جہان میں گم ہوں کسی کو کیا معلوم

نہیں ہے مجھ کو بھی اپنا اتا پتا معلوم

کسی کو عارضۂ عشق تو نہ ہو لاحق

یہ وہ مرض ہے کہ جس کی نہیں دوا معلوم

نہ جانے عشق میں یہ کیسا موڑ آیا ہے

نہیں ہے اب ہمیں اپنا بھلا برا معلوم

سمجھ کے سادہ دل اس کو دل اس پہ وار دیا

پتا چلا کہ ستم گر ہے جب کیا معلوم

بس اتنا یاد ہے اِک بت سے دل لگایا تھا

ملی ہے سخت سزا پر نہیں خطا معلوم

میں ان کے در پہ رہوں گا ابد تلک ناصر

بتوں کو ہو کہ نہ ہو میرا مدعا معلوم


فیض الحسن ناصر

No comments:

Post a Comment