Sunday 27 March 2022

یہ جو عشق مسلک کے لوگ ہیں انہیں رمز سارے سکھا پیا

 یہ جو عشق مسلک کے لوگ ہیں انہیں رمز سارے سکھا پیا

یہ جنونِ عشق کی داستاں انہیں حرف حرف سنا پیا

مِرے چارہ گر میں ہوں در بدر، میں تو تھک گئی ہے عجب سفر

مِری بے نشاں سی ہیں منزلیں مجھے راستہ بھی دکھا پیا

نہ حدود میں نہ قیود میں، مِرا دل تِرے ہی وجود میں

یہ سجود کا حسیں پیرہن میری روح پر تو سجا پیا

میں تو آس تھی میں تو پیاس تھی، کسی پھول کی میں بھی باس تھی

مِری پتیاں گریں جا بجا انہیں شاخ پر تو سجا پیا

میں فقیر ہوں میں حقیر ہوں کسی خواب کی نہ اسیر ہوں

میں عزیز ہوں تو تجھے ہی بس سو عزیز تر ہی بنا پیا

میں فلک سے آئی خطا مِری اسے ڈھونڈنا ہے وفا مِری

یہ جفا کی جو ہیں حقیقتیں مِری آنکھ کو وہ دکھا پیا

مِرے آسماں مِرے سائباں تُو ہی رازداں تُو ہی مہرباں

جہاں لا مکاں کے ہیں سلسلے وہیں میرا گھر بھی بنا پیا

یہ جو آرزؤں کا دیس ہے یہ جو خاک خاک سا بھیس ہے

جو ازل ابد کا یہ بھید ہے اسے بھید ہی میں بتا پیا

یہ قدم قدم پہ بشارتیں یہ نظر نظر میں زیارتیں

یہ بصارتیں یہ بجھارتیں مِرے شہر دل کو دکھا پیا

یہ جو میرے من میں ہے روشنی یہی زندگی یہی بندگی

مِری فکر میں تِرے ذکر میں جو چراغ ہیں وہ جلا پیا


نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment