Sunday 27 March 2022

ان آندھیوں کے مقابل قدم اٹھاتے ہوئے

 ان آندھیوں کے مقابل قدم اٹھاتے ہوئے

کوئی بھی خوف نہیں ہے دِیا جلاتے ہوئے

مجھے یہ ڈر تھا بچھڑکر وه مر نہ جائے کہیں

سو خود کو چھوڑ دیا تھا وہیں پہ آتے ہوئے

وگرنہ وه تو کبھی دل سے جا نہیں پاتا

دعائے ہجر پڑھی تھی اسے بُھلاتے ہوئے

پھر اس کے بعد تو کوئی گلہ رہا ہی نہیں

وه پھوٹ پھوٹ کے رویا گلے لگاتے ہوئے

خیال رکھنا کہ اتنی نہ دیر ہو جائے

میں خود سی ہی جاؤں تجھے مناتے ہوئے

یہی تو بات معمہ بنی ہے سب کے لیے

ہم ایک دوجے سے بچھڑے ہیں مسکراتے ہوئے


میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment