Sunday 27 March 2022

دستر خوان پہ ٹھنڈے سورج تھے اور بنجر تھے

 دستر خوان پہ ٹھنڈے سورج تھے اور بنجر تھے

یار، محمد بخشا! مٹھی کھیر میں کنکر تھے

بچپن تھا اور جیب میں کَیری اور غلیلیں تھیں

پیڑوں سے یاری تھی، سارے پنچھی ازبر تھے

کنچوں کے رنگین دلاسے، انگوری سپنے

باغ میں کچے امرودوں کی تاک میں پتھر تھے

بھوت، چھلاوے، کچی آگ اور پکی نیندیں تھیں

آدھے خود سے باہر تھے ہم، آدھے اندر تھے

بھادوں جیسی جلد کے اندر مجبوری کا نم

حبس میں گیتوں کے کلکارے یعنی نشتر تھے

چرخے پر اک رات چڑھی تھی، سناٹا بھی تھا

ماں کے بوڑھے ہاتھ میں اجلے اجلے منظر تھے

تیکھے نقش تھے آوازوں کے شور کی شفقت تھی

روہی کے کھیتوں میں شیشم جیسے پیکر تھے


علی زیرک

No comments:

Post a Comment