Sunday 27 March 2022

منادی ہے بموں کے طبل دہشت پر منادی ہے

 منادی ہے بموں کے طبلِ دہشت پر منادی ہے

سزائے موت، سارے شہر کو اس نے سنا دی ہے

بگولا جو اٹھا ہے پھیل کر طوفاں نہ بن جائے

کسی نے خار و خس کو زورِ آتش سے ہوا دی ہے

اسے ہم عقدِ مستقبل کا ہنگامہ سمجھتے ہیں

یہ کوئی شورِ ماتم ہے نہ کوئی جشنِ شادی ہے

نہیں کچھ بھی نہیں خواب و شکستِ خواب سے آگے

یہی سمجھو کہ ساری عمر ہی ہم نے گنوا دی ہے

وہ کیا جانے کہ توہینِ غرورِ عاشقاں کیا ہے

ہمارے یار نے تو خیر سے گردن جھکا دی ہے

مفاد اول، مفاد آخر، یہی محور ہے رشتوں کا

یہاں جو آج کا دشمن ہے کل کا اتحادی ہے


آفتاب اقبال شمیم

No comments:

Post a Comment