Friday 25 March 2022

پھینک یوں پتھر کہ سطح آب بھی بوجھل نہ ہو

 پھینک یوں پتھر کہ سطح آب بھی بوجھل نہ ہو 

نقش بھی بن جائے اور دریا میں بھی ہلچل نہ ہو 

کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے 

آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو 

ہے سفر درپیش تو پرچھائیں کی انگلی پکڑ 

راہ میں تنہائی کے احساس سے پاگل نہ ہو 

پہلی سیڑھی پہ قدم رکھ آخری سیڑھی پہ آنکھ 

منزلوں کی جستجو میں رائیگاں اک پل نہ ہو 

ذہن خالی ہو گئے ہیں وقت کے احساس سے 

سامنے وہ مسئلہ رکھ جس کا کوئی حل نہ ہو 

سب کے ہی سینوں میں ہے پھیلا ہوا سانسوں کا حبس 

کوئی شہر ایسا نہیں جس کی فضا بوجھل نہ ہو 

لوگ اکثر اپنے چہرے پر چڑھا لیتے ہیں خول 

تو جسے سونا سمجھتا ہے کہیں پیتل نہ ہو 

جستجو اس پیڑ کی کیوں ہو کہ جو سایہ نہ دے 

ہاتھ اس ڈالی پہ کیا پہنچے کہ جس پر پھل نہ ہو 

روز و شب لگتا رہے سوچوں کا میلہ ذہن میں 

شور سے خالی کبھی احساس کا جنگل نہ ہو 

گرم کر ساجد لہو کو دھیمی دھیمی آنچ سے 

وقت سے پہلے ترے جذبات میں ہلچل نہ ہو


اقبال ساجد

No comments:

Post a Comment