Friday 25 March 2022

کمروں میں چھپنے کے دن ہیں اور نہ برہنہ راتیں ہیں

 کمروں میں چھپنے کے دن ہیں اور نہ برہنہ راتیں ہیں 

اب آپس میں کرنے والی اور بہت سی باتیں ہیں 

لذت اور یکتائی کا اک جھونکا آیا بیت گیا 

پھر سے اپنے اپنے دکھ ہیں اپنی اپنی ذاتیں ہیں 

قربت کی لذت جیسے بارش میں پتھر رکھا ہو 

اندر صحرا جیسا موسم اور باہر برساتیں ہیں 

موم سا نازک پیکر اس کا ہاتھ لگے اور گھل جائے 

میرے جسم میں جلنے والی خواہش کی سوغاتیں ہیں 

آج ملے تو یوں لگتا ہے آج کے بعد نہیں ملنا

سانس بھی لینے کی نہیں فرصت اکھڑی اکھڑی باتیں ہیں 

آخر کوئی پڑھ ہی لے گا رسوائی کی تحریریں 

یہ میرے چہرے کی لکیریں کچھ جیتیں کچھ ماتیں ہیں 

اب جن کو تخلیق کے فن کا دعویٰ ہے شہزاد بہت 

ٹوٹے ہوئے قلم ہیں ان کے سوکھی ہوئی دواتیں ہیں


شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment