وہ جانتی ہے بدن کی بولی
مخاطبیں کے تمام خلیے
اسے دکھاتے ہیں اپنے اپنے متونِ اصلی
وہ چُپ کا ہر بھید جانتی ہے
وہ آنکھ کی پُتلیوں کے اندر لکھی کہانی میں
اپنا کردار، اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے
کہ اس پہ اُٹھی نگاہ اپنے رموزِ اوقاف
خود بتاتی ہے اس کے دل کو
وہ بند آنکھوں سے دیکھتی ہے
وہ ہر پٹاری میں کلبلاتے
تمام زہروں سے آشنا ہے
تمام منتر اسے ہیں ازبر
وہ کِیل سکتی ہے
ایک لمحے میں، جس کو چاہے
مگر یہ منصب نہیں ہے اس کا
کہ ایسے کھیلوں میں ہاتھ ڈالے
سو نیل رنگی ہے بخت اس کا
بچھا ہے صدیوں سے
کرب کی بے کنار وادی میں تخت اس کا
کما کے لاتی ہے درد کے کھنکھناتے سکے
نگاہ اس کی
جدھر بھی جائے
حمیدہ شاہین
No comments:
Post a Comment