Friday 25 March 2022

وہ جانتی ہے بدن کی بولی وہ چپ کا ہر بھید جانتی ہے

 وہ جانتی ہے بدن کی بولی

مخاطبیں کے تمام خلیے

اسے دکھاتے ہیں اپنے اپنے متونِ اصلی

وہ چُپ کا ہر بھید جانتی ہے

وہ آنکھ کی پُتلیوں کے اندر لکھی کہانی میں 

اپنا کردار، اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے 

کہ اس پہ اُٹھی نگاہ اپنے رموزِ اوقاف 

خود بتاتی ہے اس کے دل کو

وہ بند آنکھوں سے دیکھتی ہے

وہ ہر پٹاری میں کلبلاتے

تمام زہروں سے آشنا ہے

تمام منتر اسے ہیں ازبر

وہ کِیل سکتی ہے

ایک لمحے میں، جس کو چاہے

مگر یہ منصب نہیں ہے اس کا

کہ ایسے کھیلوں میں ہاتھ ڈالے

سو نیل رنگی ہے بخت اس کا 

بچھا ہے صدیوں سے 

کرب کی بے کنار وادی میں تخت اس کا

کما کے لاتی ہے درد کے کھنکھناتے سکے

نگاہ اس کی 

جدھر بھی جائے


حمیدہ شاہین

No comments:

Post a Comment