Saturday 26 March 2022

بہار دل میں ہے پِھر خوف خزاں کیسے ہو

 بہار دل میں ہے پِھر خوفِ خزاں کیسے ہو

یہ کیفیات کا لفظوں میں بیاں کیسے ہو

جو لطفِ یار  میسر جہانِ خلوت میں

وہ لطفِ یار کا اظہار یہاں کیسے ہو

جس نے گُدڑی میں صبر و شُکر کے موتی رکھے

شہرِ خود غرض میں محتاجِ زماں کیسے ہو

دیارِ عشق میں غفلت کو موت کہتے ہیں

اسیرِ نفس کے دل پر یہ گماں کیسے ہو

جسے خبر ہو اُتاریں گے قبر میں اک دن

جہاں ہو لذتِ دنیا وہ وہاں کیسے ہو

اذانِ حق کی تجلّی کا نُور ہے دل میں

کسی کے خوف سے خاموش زباں کیسے ہو

ترکِ لذات کے برکات کی دنیائے حسیں 

بدنگاہوں کی نگاہوں میں عیاں کیسے ہو

عرشِ اعظم سے اُترتی ہے سکوں سینے میں

مقصدِ زندگی اب عشقِ بُتاں کیسے ہو


ہدہد الہ آبادی

No comments:

Post a Comment