ان سے بھی تھوڑا رابطہ رکھو
زندگانی سے واسطہ رکھو
درد کو درد سے جدا رکھو
دل میں دیوار اک اٹھا رکھو
نظمِ کہنہ بدلنا ہی ہوگا
نام ہر چیز کا نیا رکھو
سب کی تعبیر ایک سی ہو گی
خواب آنکھوں میں کچھ بچا رکھو
دوستوں پر نہ اتنے اِتراؤ
دشمنوں سے بھی کچھ بنا رکھو
رجب چوہدری
No comments:
Post a Comment