Saturday 26 March 2022

پتہ کیسے چلے دنیا کو قصر دل کے جلنے کا

 پتہ کیسے چلے دنیا کو قصر دل کے جلنے کا 

دھوئیں کو راستہ ملتا نہیں باہر نکلنے کا 

بتا پھولوں کی مسند سے اتر کے تجھ پہ کیا گزری 

مِرا کیا میں تو عادی ہو گیا کانٹوں پہ چلنے کا 

مِرے گھر سے زیادہ دور صحرا بھی نہیں لیکن 

اداسی نام ہی لیتی نہیں باہر نکلنے کا 

چڑھے گا زہر خوشبو کا اسے آہستہ آہستہ 

کبھی بھگتے گا وہ خمیازہ پھولوں کو مسلنے کا 

مسلسل جاگنے کے بعد خواہش روٹھ جاتی ہے 

چلن سیکھا ہے بچے کی طرح اس نے مچلنے کا 

زر دل لے کے پہنچا تھا متاع جاں بھی کھو بیٹھا 

دیا اس نے نہ موقع بھی کف افسوس ملنے کا 

خوشی سے کون کرتا ہے غموں کی پرورش ساجد 

کسے ہے شوق لوگو درد کے سانچے میں ڈھلنے کا


اقبال ساجد

No comments:

Post a Comment