Thursday 24 March 2022

نظم لکھتے ہوئے سوچنا چاہئے

 نظم نامہ

نظم لکھتے ہوئے سوچنا چاہئے

نظم ٹوٹے گی تو شاعروں کے قلم پر 

کسی چیخ کا ایک دھبہ لگے گا

کوئی آگ جنگل جلائے بنا ہی بجھے گی

کہیں آب و گل کی کہانی رکے گی

کوئی بات ہونٹوں سے چپکی رہے گی

نظم تقدیر ہے

فاعلن فاعلن فاعلن کی مثلث کے پیچھے چھپی ایک زنجیر ہے

نظم آنکھوں سے بہتے ہوئے خون کی ایک تحریر ہے

نظم چڑیا نہیں ہے جسے آب و دانہ کے لالچ میں

۔۔۔ کوئی شکاری پکڑ کر کہیں بیچ دے

نظم پتھر نہیں جو کسی بھی دِوانے کو مارو 

تو زخموں سے لیلیٰ مرے

نظم تو پانچ کومل سُروں، رے، گا، ما، پا، دھا کا 

ایک سنگیت ہے

نظم من میت ہے

قافیوں کے طلسمات اور صوت کے

بوڑھے آہنگ سے نظم بنتی نہیں

اپنے فنکار کی سمت جاتی ہوئی

مسکراتی ہوئی ، گنگناتی ہوئی

نظم گردش میں ہے

اور یہ گردش فقط قافیوں اور ردیفوں کی گردش نہیں

یہ زمان و مکاں سے پرے لامکاں کی طلب میں

گناہوں ثوابوں سے نکلی ہوئی ایک گردش ہے

جس میں کسی دیوتا یا پری زاد کی کوئی خواہش نہیں

داد سے بھی پرے اور ڈرامائی انداز سے بھی پرے

اپنی گردش میں گم

نظم حیرت کے ماروں کی اک روشنی

نظم مٹی کے گیتوں کی اک راگنی

نظم آزاد ہے اور غلاموں کی فریاد ہے

نظم دکھ ہے خوشی جس میں آباد ہے

نظم انسان کا روپ دھارے ہوئے

غار سے یار تک لے کے جاتا ہوا ایک دستور ہے

نظم آزاد اور پہلی آواز ہے

خاک ہے نور ہے خون ہے

ک اور ن ہے

نظم جنت میں آدم نے تنہائی میں جب کہی تھی تو حوا بنی

نظم آنکھوں سے ہوتی ہوئی پسلیوں میں رکی تھی تو حوا بنی

نظم کہنے کو تو شاعری ہے مگر شاعری ہی نہیں

شاعری تو غزل کے تماشہ گروں کا تماشہ ہوئی

نظم تو راز ہے

نظم فطرت کا سنگیت اور ساز ہے

نظم باہُو کا عرفان، بُلھے کا وجدان خواجہ کی دستار ہے

نظم خُسرو کی مستی ہے منصور کا دار ہے

نظم رومی و سعدی و اقبال و عطار ہے

نظم حیرت کے ماروں کا انکار ہے

نظم عیسیٰ کے لب سے ادا جب ہوئی تو محبت بنی

اور معبد کے دستور کو روندتی ضابطہ بن گئی

نظم راون کی لنکا جلاتی ہوئی

قہر ڈھاتی ہوئی

گنگناتی ہوئی، مسکراتی ہوئی

آگ ہے، راگ ہے، بھاگ ہے

نظم لکھتے ہوئے سوچنا چاہئے


ندیم بھابھہ

No comments:

Post a Comment