Thursday 24 March 2022

نہ عشق میں نہ ریاضت میں دھاندلی ہوئی ہے

نہ عشق میں نہ ریاضت میں دھاندلی ہوئی ہے

تمہاری اپنی ہی نیّت میں دھاندلی ہوئی ہے

گناہگار تو دوزخ میں بھی کہیں گے یہی؛

حسابِ روزِ قیامت میں دھاندلی ہوئی ہے

ہماری آہوں کی گنتی دوبارہ کرواؤ

ہمارے ساتھ محبت میں دھاندلی ہوئی ہے

میں اپنے عشق میں گُم ہوں، مِری بلا جانے

نہیں ہوئی کہ سیاست میں دھاندلی ہوئی ہے

وہ جشنِ فتح سے جل کر دُہائی دیتے ہیں

کہ لوگو! مالِ غنیمت میں دھاندلی ہوئی ہے

گِنے جو پاؤں کے چھالے تو قیس جیت گیا

ہوا بضد تھی مُسافت میں دھاندلی ہوئی ہے

میں اس لیے بھی نمازیں قضا نہیں کرتا

خدا کہے گا؛ عبادت میں دھاندلی ہوئی ہے

خرید لایا تو گھر آ کے یہ کُھلا مجھ پر

کہ چیز ٹھیک ہے، قیمت میں دھاندلی ہوئی ہے

تُمہارا نام نوازے ہوؤں میں تھا ہی نہیں

سو مت کہو کہ عنایت میں دھاندلی ہوئی ہے

عجیب شعر مِرے نام چھپ گئے، فارس

مِری غزل کی کتابت میں دھاندلی ہوئی ہے


رحمان فارس 

No comments:

Post a Comment