Thursday 24 March 2022

بنانے والے کو بننے والے کا غم پتا تھا تو کیوں بنایا

 بنانے والے کو بننے والے کا غم پتا تھا تو کیوں بنایا

یہ بن کے اتنے ستم سہے گا وہ جانتا تھا تو کیوں بنایا

میں پوچھتا ہوں کہ کیا ضرورت تھی دین و دنیا کے فلسفے کی

میں سوچتا ہوں کہ سب کو جاں سے گزارنا تھا تو کیوں بنایا

ہزاروں رنگوں کی خواہشوں کے کروڑوں آنکھوں کو خواب دے کر

حقیقتوں کی اذیتوں سے گزارنا تھا تو کیوں بنایا

بنا کے مٹی سے آدمی کو ملائیکہ سے کرا کے سجدہ

پھر اس کو مٹی پہ پھنکنا ہے یہ طے ہوا تھا تو کیوں بنایا

شکایتوں کو روا نہ رکھنا یہ آمریت ہے آمریت

اذیتوں سے ہی آدمی کو سنوارنا تھا تو کیوں بنایا

لگا کے تھّپے شجاعتوں کے بغاوتوں کو عروج دے کر

پھر ایک مچھر کے کاٹ لینے سے مارنا تھا تو کیوں بنایا

میں سوچتا ہوں یہ آئینِ دیں، جزا سزا کی یقیں دہانی

اگر یہی طرز حاکمیت، چنا گیا تھا تو کیوں بنایا

تباہ کرنا تھا جب زمیں کو تو اس پہ کیوں کر نبی اتارے؟

کھلا کے گلشن میں گل ہزاروں اجاڑنا تھا تو کیوں بنایا

نہ بھیجتے وقت ہم سے پوچھا نہ واپسی پر بلاتے راجز

اگر اسی جبر کے سفر سے گزارنا تھا تو کیوں بنایا


راجز ودوان

علی ذوالقرنین

No comments:

Post a Comment