Thursday 24 March 2022

نہیں بھولی بھٹک کر بھی محبت کے ٹھکانوں کو

 نہیں بھولی بھٹک کر بھی محبت کے ٹھکانوں کو

وہ اپنے عشق کی نگری، وہ بچپن کے زمانوں کو

سدا فرقت کے صحرا نے مجھے بخشی ہے ویرانی

بناتی رہ گئی میں ریت پر کیوں آشیانوں کو

صدائے درد نے جو ساز چھیڑا تھا فضاؤں میں

اسی نے حسن بخشا ہے مِرے غمگیں فسانوں کو

کبھی شوہر کے آنگن میں کبھی بے گور اسیری میں

گزاری زیست ہم نے کاٹ کر اپنی زبانوں کو

انا کی آگ میں جھونکا کبھی سُولی پہ لٹکایا

میں دہرانے نہ دوں گی ایسی خونی داستانوں کو

یہ کومل پھول کی پتی، یہ میری نرم خو بیٹی

لگا کے ضرب کاری، توڑ ڈالے گی چٹانوں کو

سبھی در کھول ڈالوں گی میں ورد اسم الفت سے

لگائے قفل کیوں کوئی محبت کے مکانوں کو

لہو سے بھر گئیں کیسے گلابوں سے سجی شامیں

اماں میں رکھ مِرے مولا مِرے بچوں جوانوں کو

ہیں گہری نیند میں کھوئے سجا کے خواب غفلت کے

شفق! ہم کو جگانا ہے وطن کے پاسبانوں کو


نیر رانی شفق

No comments:

Post a Comment