Sunday, 27 March 2022

وہ غمگسار بالآخر بلائے جاں نکلا

وہ غمگسار بالآخر بلائے جاں نکلا

جسے زمین سمجھتے تھے آسماں نکلا

عظیم تر ہے محبت میں روح کا رشتہ

مگر بدن کا تعلق بھی درمیاں نکلا

سراغ قتل شہادت ثبوت سب گونگے

لہو خموش تھا خنجر بھی بے زباں نکلا

تمام راستے ماضی کے بند تھے پھر بھی

ہر ایک موڑ سے یادوں کا کارواں نکلا

سنی جو میری کہانی تو رو پڑے سب لوگ

سبھوں کے درد میں اک رشتہ نہاں نکلا

ہم اپنے غم کا فسانہ کہا کیے شب بھر

ہوئی جو صبح تو ذکر غم جہاں نکلا

شہاب! جس کی خطابت کا شور ہے یارو

غزل کی بزم میں کم صوت و کم بیاں نکلا


منظر شباب

No comments:

Post a Comment