عیشِ رفتہ نے بہت خون رُلایا ہے مجھے
پھول کی سیج نے کانٹوں پہ سلایا ہے مجھے
دے کے اک شعلۂ گُفتار جگایا ہے مجھے
عہدِ خوابیدہ نے بے درد بنایا ہے مجھے
زرد رُو خار بھی ہے عاشق سلمائے بہار
شوخ کلیوں نے اشاروں میں بتایا ہے مجھے
ٹُوٹتا ہی نہیں رنگینیٔ خواہش کا طلسم
اسم اعظم کا عمل بھی تو سکھایا ہے مجھے
خونِ مظلوم اکارت تو نہیں جا سکتا
زخم گُلریز نے پُھولوں سے سجایا ہے مجھے
شاید اس دور کا شیو جی ہی سمجھ کر جاوید
وقت نے زیست کا سب زہر پلایا ہے مجھے
جاوید وششٹ
No comments:
Post a Comment