جو ماہر تھے کسی فن کے وہی بے کار بیٹھے ہیں
جو تھے بے کار ہر فن میں بنے فنکار بیٹھے ہیں
نہیں آتا جہاں میں اب عصا لے کر کوئی موسیٰ
ہزاروں اب تو یاں فرعون کے اوتار بیٹھے ہیں
نہ ہی اب ٹھنڈی ہوتی ہے نہ ہی گلزار بنتی ہے
زمانے بھر کے کافر دہکا کے انگار بیٹھے ہیں
اے لوگو ناچنے کو اب بھی جی کرتا ہے جلسے میں
ادھر تو لوگ پتھر پکڑے اب تیار بیٹھے ہیں
گراتے ہیں یہ مسجد اور بناتے ہیں یہ بت مندر
چلے آؤ اے سلطاں تم یاں آزر یار بیٹھے ہیں
جو ڈالر لیتے ہیں اور بیچتے ہیں قوم کی بیٹی
مِرے اس ملک میں ایسے سپہ سالار بیٹھے ہیں
ستاروں پر نطر رکھتا ہے یورپ کا جو بچہ ہے
ہمارے ہاں سجائے بچے سب دربار بیٹھے ہیں
امیر فاروق آبادی
No comments:
Post a Comment