Friday 25 March 2022

اے غمگسار مرے دوست آزماتے نہیں

اے غمگسار! مرے دوست، آزماتے نہیں

جو جا رہے ہوں مِری جاں انہیں بلاتے نہیں

یہ درد و غم کے ہیں قصے تمہیں رلائیں گے

ہو مختصر بھی کہانی مگر سناتے نہیں

تمہیں ملیں گی دریچے میں منتظر شمعیں

کہیں بھی جائیں ہم آنکھوں کو لے کے جاتے نہیں

سن اے بہار! یہ دستک تِری لہو ہو گی

نہ گھر پہ کوئی اگر ہو تو کھٹکھٹاتے نہیں

طبیب میرا یہ کہتا ہے میں ہوا بدلوں

کوئی بتائے کہ بدلاؤ راس آتے نہیں

تم اپنے دل کا یہ پنجرہ بھی چاہے کھول رکھو

ہم ایسے پنچھی کبھی پر کو بھی ہلاتے نہیں

میں جاگ جاتی ہوں پر آنکھ کھل نہیں پاتی

مگر یہ بات مِرے دوست کیوں بتاتے نہیں

عجب نہیں ہے یہ دلشاد غمزدہ گھر میں

چراغ جلتے نہیں یا انہیں جلاتے نہیں


دلشاد نسیم 

No comments:

Post a Comment