Friday 25 March 2022

تشنہ لبوں کے خالی کوزے اشکوں سے بھر جاتے ہیں

 تشنہ لبوں کے خالی کوزے اشکوں سے بھر جاتے ہیں

پیاس کی شدت بڑھ جاتی ہے اور پیاسے مر جاتے ہیں

وقت مقام کی پیشانی پر ایسی خراشیں کھینچتا ہے

شہر سے جانے والے شہر میں لوٹیں تو ڈر جاتے ہیں

ان آنکھوں کا  اک بوسہ لفظوں کو خوشبو دیتا ہے

ان ہونٹوں کے رنگ بکھر کر منظر منظر جاتے ہیں

شام سمے روحیں جسموں کی شاخ پہ آ سستاتی ہیں

چلتے پھرتے لاشے صبح سویرے دفتر جاتے ہیں

شہرِ جنوں کی ایک جھلک ہے نورِ نظر کی قیمت میں

جن کے دو دو بیٹے ہیں وہ لوگ مکرر جاتے ہیں

سرحد پار کی اک بستی میں کوئی  ہمارا رہتا تھا

اس کی خیر خبر سننے کو ہم دریا پر جاتے ہیں

ان کی یاد میں رونا ہے یا ہنسنا ہے معلوم نہیں 

کیسے ظالم لوگ ہیں جو ہنستے  ہنستے مر جاتے ہیں


عدنان محسن

No comments:

Post a Comment