تعجب کیا اسے اڑنا جو اچھے سے نہیں آیا
وہ پنچھی شاہ بازوں کے قبیلے سے نہیں آیا
گلے میں اپنے پھندا ڈال کر پھرتا ہے گلیوں میں
کہ دیوانے کو مرنا بھی سلیقے سے نہیں آیا
تِرا چاقو تجھے لوٹانے آیا ہوں مِرے بھائی
میں تجھ کو قتل کرنے کے ارادے سے نہیں آیا
اگر کچھ سیکھنا ہو مشکلیں بھی سہنی پڑتی ہیں
کبھی کوئی ہنر آسان رستے سے نہیں آیا
ولی سے میر سے خسرو سے آیا ہے سخن میرا
جگر کے داغ کے حسرت کے لہجے سے نہیں آیا
جو مجھ کو چوٹ پہنچائے بنا رہتا نہ تھا پل بھر
سلیم! اس کا کوئی پیغام عرصے سے نہیں آیا
سردار سلیم
No comments:
Post a Comment