کبھی خوشی تو کبھی غم ہے دار فانی میں
کبھی ہے پیری کا دُکھ اور سُکھ جوانی میں
بنائے ہیں تُو نے ارضی خدا ہزاروں یاں
مگر حقیقی خدا تو ہے ہر نشانی میں
سناتا پھرتا ہے فرضی کہانیاں واعظ
وہ چشم پوش ہے اکثر ہی حق بیانی میں
وہ جس کے پاس نہ مرہم ہو قوم کے دُکھ کی
وہ جا کے ڈوب مَرے حکمراں ہی پانی میں
یہ تو عذاب ہے وائرس کہتے ہیں جس کو
سبق ہے کوئی عجب موت ناگہانی میں
ملے گا لازمی لکھا ہے جو مقدر میں
تو چھوڑ دے یہ پریشانی زندگانی میں
یوں تو ہیں اور بھی شاعر بہت زمانے میں
مگر کلام تِرا ہے جدا روانی میں
امیر فاروق آبادی
No comments:
Post a Comment