Sunday 27 March 2022

پیغام ہوا لائی ہے نہ جانے کدھر سے

 پیغام


پیغام ہوا لائی ہے نہ جانے کدھر سے

پتوں پہ ابھر آئی ہے تحریر کدھر سے

جو دیکھی ہے لائی ہے وہ تصویر کدھر سے

اک راہ پہ وہ آیا ہے اک لمبے سفر سے

محمل میں وہ بے خواب ہے عالم کی خبر سے

کیا دیکھیے، کیا شکل ہوئی زیر و زبر سے

اک وصل کے موسم میں جہاں جاگ اٹھا ہے

گھر بار زمیں کون و مکاں جاگ اٹھا ہے

خوش ہو کے وہ آزردۂ جاں جاگ اٹھا ہے

کیا وقت کی دہلیز پہ دستک ہے کسی کی؟

سوئی ہوئی دنیا کو سحر ڈھونڈ رہی ہے

اس دور کو اک اچھی خبر ڈھونڈ رہی ہے


جیلانی کامران

No comments:

Post a Comment