Sunday 27 March 2022

ہم کبھی ملے نہیں جیسے لوگ ملتے ہیں

ہم کبھی ملے نہیں


جیسے گلیوں، چوباروں، باغیچوں میں 

لوگ ملتے ہیں

حسنِ یاراں کو دل میں سینچتے ہیں 

ہم ایسے کبھی ملے نہیں

تم تجسس کے مارو، ہم سے نہ پوچھو

یہ محبت کی باتیں، وہ چاہت کے قصے  

کہ ہماری سماعتوں نے سنے نہیں 

نگاہوں میں اپنی بھرے نہیں

وہ لب ہلیں تو بنتا ہے کیا

گر اٹھے نظر تو ہوتا ہے کیا

ہمیں کیا خبر کہ ہم نے تو کبھی 

دل کی شاخوں کو اٹھتے نہ دیکھا کبھی 

جام بھر کر انھیں نہ سوچا کبھی

ہمارے ہاتھ پل پل تڑپتے رہے  

جان مایوسیوں کے آنگن میں لپٹی رہی 

دو کنارے اک دم بچھڑنے لگے

یہ ملنے کی حسرت لے ڈوبی ہمیں

نہ ہاتھ چھوٹے، نہ جسم لرزے 

ہم نے آنسوؤں سے اک دوسرے کو رخصت کیا 

کہ دیوانوں کی مانند ہم تو کبھی 

چُپ چاپ نئی راہ پہ بچھڑے نہیں  

ہم ایسے کبھی ملے نہیں


طوبیٰ منہاس

No comments:

Post a Comment