دنیا کی جو خوشی تھی وہ غم سے بدل گئی
شاید حیات عشق کے سانچے میں ڈھل گئی
دنیا پھری پھری ہے تمہاری نظر کے ساتھ
تم کیا بدل گئے کہ خدائی بدل گئی
رخ بجلیوں نے موڑ لیا سوئے آشیاں
آئی ہوئی بلا مِرے گلشن سے ٹل گئی
دی ہے کسی کی یاد نے دستک کچھ اس طرح
جیسے صبا قریب سے آ کر نکل گئی
میری خوشی کی بات کا اب پوچھنا ہی کیا
میری ہر اک خوشی تو تِرے غم میں ڈھل گئی
جس شے کو تم نے دیکھ لیا التفات سے
وہ شے تمہارے حسن کے سانچے میں ڈھل گئی
وہ خیریت کے واسطے آئیں گے گھر مِرے
شاید اسی سبب سے طبیعت سنبھل گئی
کتنا قوی جنوں کا ہے رشتہ بہار سے
جب بھی بہار آئی طبیعت مچل گئی
دنیا کو خوش جو دیکھا تو میں مسکرا اٹھا
دنیا نے جب خوشی مِری دیکھی تو جل گئی
گوہر گراں ہے میری طبیعت پہ کیف و رنگ
ہاں دیکھ کر خزاں کو طبیعت بہل گئی
گوہر شیخ پوروی
سید علی حسنین
No comments:
Post a Comment