Sunday, 27 March 2022

دنیا کی جو خوشی تھی وہ غم سے بدل گئی

دنیا کی جو خوشی تھی وہ غم سے بدل گئی

شاید حیات عشق کے سانچے میں ڈھل گئی

دنیا پھری پھری ہے تمہاری نظر کے ساتھ

تم کیا بدل گئے کہ خدائی بدل گئی

رخ بجلیوں نے موڑ لیا سوئے آشیاں

آئی ہوئی بلا مِرے گلشن سے ٹل گئی

دی ہے کسی کی یاد نے دستک کچھ اس طرح

جیسے صبا قریب سے آ کر نکل گئی

میری خوشی کی بات کا اب پوچھنا ہی کیا

میری ہر اک خوشی تو تِرے غم میں ڈھل گئی

جس شے کو تم نے دیکھ لیا التفات سے

وہ شے تمہارے حسن کے سانچے میں ڈھل گئی

وہ خیریت کے واسطے آئیں گے گھر مِرے

شاید اسی سبب سے طبیعت سنبھل گئی

کتنا قوی جنوں کا ہے رشتہ بہار سے

جب بھی بہار آئی طبیعت مچل گئی

دنیا کو خوش جو دیکھا تو میں مسکرا اٹھا

دنیا نے جب خوشی مِری دیکھی تو جل گئی

گوہر گراں ہے میری طبیعت پہ کیف و رنگ

ہاں دیکھ کر خزاں کو طبیعت بہل گئی


گوہر شیخ پوروی

سید علی حسنین

No comments:

Post a Comment