بکھرا پڑا ہوا کہیں رسوائیوں میں تھا
لمحہ جو ایک وقت کی رعنائیوں میں تھا
اک مرمریں سے ہاتھ نے کھولے مِرے بٹن
پھر میں کسی کے لمس کی گہرائیوں میں تھا
وہ تھا گئے دنوں کی اذیت میں مبتلا
میں بھی کسی قیاس کی پرچھائیوں میں تھا
بتلا رہا ہے مجھ کو نئی دھوپ کا مزاج
سورج بھی ایک پور کی رعنائیوں میں تھا
امکان کے دریچے پہ آواز دھر گیا
وہ جو حصارِ وقت کی پروائیوں میں تھا
بہنے لگا وجود میں میرے لہو کے ساتھ
ایسا سرور و کیف بھی انگڑائیوں میں تھا
دیپک جلا تو رات بھی جلنے لگی سہیل
کل رات تیری یاد کی شہنائیوں میں تھا
سہیل رائے
No comments:
Post a Comment